لندن(این این آئی)ایک تحقیقات میں سعودی عرب کے خلاف ایرانی سپریم لیڈر علی خامنہ ای کی زیرقیادت ایرانی سازش کی نئی تفصیلات کا پردہ چاک کیا گیا ہے۔میڈیارپوٹس کے مطابق ڈرون طیاروں کے ذریعہ سعودی آرامکو میں تیل کی تنصیبات پر حملے سے چار ماہ قبل ایرانی سیکیورٹی اہلکار تہران کے
سخت سیکیورٹی والے آڈیٹوریم میں جمع ہوئے۔ ان میں پاسداران انقلاب کے سینئرکمانڈر بھی شامل تھے۔ ان میں وہ عہدیدار بھی شامل تھے جو میزائلوں کے اپ گریڈ کرنے اور خفیہ آپریشن کے ذمہ دار سمجھے جاتے ہیں۔مئی کے مہینے میں ہونے والے اس اجلاس کا اصل ایجنڈا یہ تھا کہ امریکا کو تاریخی جوہری معاہدے سے دستبردار ہونے اور ایران کے خلاف معاشی پابندیوں کی طرف لوٹنے کے جرم کی سزا کیسے دی جائے۔ کیونکہ یہ دو ایسے اقدامات تھے جنہوں نے اسلامی جمہوریہ ایران کو شدید دھچکا پہنچایا ہے۔برطانوی نیوز ایجنسی نے چار مختلف ذرائع کے حوالے سے ایرانی سپریم لیڈر کا بیان نقل کیا جس میں انہوں نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی تلواریں دکھائیں اور انہیں سبق سکھائیں۔ اس موقع پر ایرانی لیڈروں نے امریکی فوجی اڈوں سمیت اعلی اہمیت والے اہداف پر حملہ کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔تاہم اس اجلاس اس پہلو پرغور کیا گیا کہ ایران ایران کے خلاف کوئی ایسا اقدام کرے سانپ بھی مرے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ یعنی امریکا کو منہ توڑ جواب بھی مل جائے اور اس کے ساتھ براہ راست محاذ آرائی بھی نی ہو۔ اورنہ امریکا کا سخت جوابی رد عمل ایران کے لیے زیادہ مشکلات پیدا کرسکتا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اسی تجویز پر اس کے بعد ایرانی پاسداران انقلاب کے چار دوسرے اجلاسوں میں بھی غور کیا گیا۔رپورٹ میں تین ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ 14 ستمبر کو سعودی عرب میں تیل کی تینصیبات پرحملوں کے لیے منصوبہ ایرانی پاسداران انقلاب کی طرف سے تیار کیا گیا اور اس پرعمل درآمد کی منظوری سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کی طرف سے دی گئی تھی۔ان کا کہنا تھا کہ ایرانی رہ نما علی خامنہ ای نے اس شرط پر اس آپریشن پر اتفاق کیا ہے کہ ایرانی افواج کسی بھی شہری یا امریکی کو زخمی کرنے سے گریز کرے گی۔