ٹوکیو(این این آئی )جاپان میں افرادی قوت کی کمی کے باعث غیرملکی محنت کشوں کے لیے نئی ویزہ پالیسی متعارف کرا دی گئی ہے۔ لاکھوں بلیو کالر ملازمین کی تلاش میں یہ نئے قوانین نافذ العمل ہو گئے ،جاپان کی تاجر برادری نے اس حکومتی فیصلے اور ویزے کے قواعد و ضوابط میں نرمی کا خیرمقدم کیا ہے۔ دوسری جانب کئی جاپانی شہریوں نے اسے حکومتی غلطی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح
ملکی شہریوں کی ملازمتوں، سماجی ہم آہنگی اور قومی سلامتی کو خطرے میں ڈال دیا گیا ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق جاپان کی طرف سے متعارف کرائی گئی نئی ویزہ پالیسی کے دو ورڑن ہیں اور دونوں میں ہی درخواست گزاروں کے لیے کسی جاپانی کمپنی کا سپانسر لیٹر حاصل کرنا ضروری ہے۔ ممکنہ ملازمین کو متعدد لازمی امتحانات بھی پاس کرنا ہوں، جن میں جاپانی زبان کا امتحان بھی شامل ہے۔پہلی قسم کے ویزے ان غیرملکیوں کو فراہم کیے جائیں گے، جو فوڈ سروسز، صفائی، تعمیرات، زراعت، ماہی گیری، گاڑیوں کی مرمت اور صنعتی مشینری آپریشن کے شعبوں میں کام کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ویزے محدود مہارت رکھنے والے غیرملکیوں کے لیے ہوں گے۔ پہلی قسم کے ویزوں کی مدت پانچ سال تک ہو گی لیکن ایسے ویزوں کی تجدید بھی ممکن ہو گی۔ ایسے تمام غیرملکی ملازمین اپنے اہلخانہ کو جاپان بلانے کے اہل نہیں ہوں گے۔تاہم جن ہنرمند افراد کو دوسری قسم کا ویزہ دیا جائے گا، وہ مخصوص معیارات پر پورا اترنے کے بعد اپنے اہلخانہ کو جاپان بلا سکیں گے۔ اسی وجہ سے کئی جاپانی شہری وزیراعظم شینزو آبے کی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ ان ناقدین کے مطابق اس طرح جاپان میں تارکین وطن کے لیے مستقل رہائش کے دروازے کھول دیے گئے ہیں۔جاپان میں افرادی قوت کا مسئلہ چوبیس گھنٹے کھلنے والے اسٹوروں کو دیکھ کر مزید واضح ہو جاتا ہے۔ افرادی قوت کی کمی کی وجہ سے ایسے اسٹورز کے مالکان کو شدید مشکلات کا سامنا ہے کیوں کہ فرنچائز معاہدوں کے تحت انہیں لازمی طور پر چوبیس گھنٹے سروس فراہم کرنا ہوتی ہے۔مبصرین کے مطابق جاپان کو زیادہ آٹومیشن اور روبوٹس کی مدد کے ساتھ بھی لوگوں کی کمی کا سامنا ہے۔ اس نئی پیش رفت کو جاپان کے لیے ایک ٹیسٹ کیس بھی قرار دیا جا رہا ہے کہ وہ تارکین وطن کا معاشرے میں انضمام کیسے کرے گا اور کس حد تک اپنے اس منصوبے میں کامیاب رہتا ہے۔