اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)ہندوستان میں مسلمانوں کی اکثریت اس وقت کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے ،روزنامہ جنگ میں شائع ایک خبر کے مطابق 15کروڑ مسلمان یومیہ پچاس روپے بھی نہیں کما پاتے لیکن نفلی عبادات، شادی بیاہ اور سیرو تفریح پر سالانہ سترہ ہزار کروڑروپے خرچ کردیتے ہیں۔
بھارت کے امیر مسلمان ایک سال میں عمرہ اور شادی بیاہ پر جتنا خرچ کرتے ہیں اس سے سوا تین لاکھ مسلمان بچوں کی عمر بھر کے تعلیمی اخراجات پورے ہوسکتے ہیں۔ بھارتی مسلمان شادیوں پر سالانہ 12 ہزار کروڑ روپے ، عمرے پر4 ہزار کروڑ روپے اور بیرون ملک چھٹیاں گزارنے پر 800 کروڑ روپے خرچ کرتے ہیں۔ ایک متوسط گھرانے کی شادی میں عموماً 8 لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں۔ 15 کروڑ مسلم آبادی میں سے متوسط طبقے کی کم از کم 15 لاکھ شادیاں ہر سال ہوتی ہیں۔ ایک بھارتی مسلمان بچے کی عمر بھر یعنی18سالہ تعلیم پر پانچ لاکھ چالیس ہزار روپے خرچ ہوتے ہیں۔ بھارتی میڈیا میں شائع ایک مضمون کے مطابق مسلمانوں کا ایک طبقہ شادی بیاہ میں فضول خرچی کے خلاف مہم چلانے کے ساتھ ہی بار بارعمرہ کرنے والوں کو بھی سمجھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس طبقے کی دلیل ہے کہ ان کاموں میں خرچ کی جانے والی رقم کو ملت کی تعلیم و فلاح کے کاموں میں لگانا چاہیے، جس کی اس بدحال قوم کو سخت ضرورت ہے۔ یہ طبقہ اپنے مشن کے لیے ملک بھر کا دورہ کرکے آسودہ حال لوگوں سے گزارش کرتے ہیں کہ شادیوں کا بھاری بھر بجٹ کم کریں اور رقم کااستعمال مسلمانوں کے تعلیمی مقاصد میں کریں ۔ ان کا موقف ہے کہ اسلام میں حقوق اللہ پرحقوق العبادکو ترجیح دی گئی ہے۔
مضمون کے مطابق ایک بھارتی ادارے این سی ای یو ایس کی رپورٹ کہتی ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کی84فی صد آبادی اوسطاً50روپے یومیہ سے بھی کم کماتی ہے یعنی پندرہ کروڑ مسلمان روزانہ پچاس روپے بھی نہیں کما پاتے۔رواں برس حج کی ادائیگی کےلئے ساڑھے چار لاکھ مسلمانوں نے درخواستیں دی ہیں۔فی درخواست گزار اڑھائی لاکھ سالانہ مذہبی فرائض کی ادائیگی میں خرچ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
یہ رقم سالانہ دس ہزار کروڑ روپے سے تجاوز کر جاتی ہے اس میں عمرے کی ادائیگی کے اخراجات بھی شامل کرلئے جائیں تو یہ پندرہ ہزار کروڑ روپے سے بڑھ جائیں گے، اگر اتنی بڑی رقم میں سے معمولی سی رقم انسانی رفاح پر خرچ کردی جائے تو بھارتی مسلمانوں کی تقدید بدل سکتی ہے۔ایک اندازے کے مطابق کوئی اڑھائی لاکھ مسلمان ہر سال عمرہ کرتے ہیں اور اس کے لیے اپنی حیثیت کے مطابق پیکج لیتے ہیں جس پر تقریباً 4 ہزار کروڑ روپے کے اخراجات کا اندازہ ہے۔
ایک سال پہلے تک مرکزی وزارت برائے اقلیتی امور کا سالانہ بجٹ محض 2832 کروڑ روپے تھا۔ 2017-18 میں اسے بڑھا کر 4535 کروڑ روپے کیا گیا بھارت میں صرف مسلمان ہی اقلیت نہیں ہیں بلکہ دیگر طبقات بھی اقلیتی زمرے میں شامل ہیں۔ لہذا یہ بجٹ صرف مسلمانوں کے لیے ہو، ایسا نہیں، اس میں سے وہ 80 فیصد ہی حاصل کر پاتے ہوں گے، جبکہ وہ صرف عمرہ کے لیے اس سے کہیں زیادہ رقم خرچ کر دیتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں مسلمان ایک نفلی عبادت کے لیے کئی سو کروڑ روپے سے زیادہ خرچ کر رہے ہیں، جتنی رقم حکومت سبھی اقلیتوں کے لیے بجٹ میں رکھ رہی ہے۔ صرف عمرہ کے لیے اس بھاری بھرکم خرچ کا آدھا حصہ بھی مسلم قوم کی تعمیر و ترقی کے لیے خرچ کر دیا جائے تو قوم کی حالت میں انقلابی تبدیلی دیکھی جا سکتی ہے۔ اس بھاری بھرکم خرچ کا فائدہ فی الحال ٹور آپریٹرز، ہوائی کمپنیاںاور سعودی عرب کو پہنچ رہا ہے۔