انقرہ(آئی این پی) ترک وزیر خارجہ چاووش اوغلو کا کہنا ہے کہ امریکا کی جانب سے شامی کردش ملیشیا وائے پی جی کی حمایت کرنا سب سے بڑی غلطی تھی،مذکورہ معاملہ نیٹو اختلافات کا سبب بنا،بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق ترک وزیر خارجہ میلود چاووش اوغلو کا کہنا ہے کہ امریکا کی جانب سے شامی کردش ملیشیا وائے پی جی کی حمایت کرنا سب سے بڑی غلطی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ مذکورہ معاملے کی وجہ سے نیٹو اتحادیوں کے درمیان تنازعات شروع ہوئے۔ رپورٹ میں بتایا ہے کہ وائے پی جی کی حمایت کیے جانے پر ترکی، امریکا سے سخت ناراض ہوا تھا، جسے وہ ترکی میں موجود کردش ورکر پارٹی کی جانب سے کئی دہائیوں سے جاری دہشت گردی میں مزید اضافے کی وجہ تصور کرتا تھا۔ترکی اور امریکا کے درمیان تعلقات شام کے حوالے سے واشنگٹن کی پالیسیوں کی وجہ سے کشیدگی کا شکار ہوئے، جس کے باعث ترکی میں امریکی پادری کی گرفتاری اور ترکی کی جانب سے امریکا میں مقیم فتح اللہ گولن کی تحویل کا مطالبہ سامنے آیا، جن پر 2016 کی ترک بغاوت کا الزام لگایا جاتا ہے۔ترک وزیر خارجہ میلود چاووش اوغلو، جو ان دنوں امریکا کے سرکاری دورے پر موجود ہیں، کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی امریکا کی جانب سے وائی پی جی کے معاملے پر گولن کی حمایت کی وجہ سے ہے، جن کے خلاف ان کا کہنا تھا کہ گولن کے خلاف ایف بی آئی نے تحقیقات کا آغاز کردیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ‘یہ جانتے ہوئے بھی کہ وائی پی جی، پی کے کے کا حصہ ہے اور اس کی حمایت کرنا ایک بڑی غلطی تھی’۔انہوں نے مزید کہا کہ وہ امریکی ہم منصب مائیک پومپو کے ساتھ منگل کے روز دو طرفہ تعلقات پر بات چیت کریں گے۔ترکی کی سرکاری نیوز ایجنسی ‘اناطولو’ نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ گزشتہ روز ترک وزیر دفاع حلوصی آکار کا کہنا تھا کہ انہوں نے امریکی چیف آف اسٹاف جوزف ڈانفورڈ کو بتایا تھا کہ ترکی یہ امید کرتا ہے کہ امریکا وائی پی جی کی حمایت جلد از جلد بند کردے گا۔رپورٹ میں ترک وزیر دفاع کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ ‘ہم نے انہیں ایک مرتبہ پھر خبردار کیا ہے کہ ہم امید کرتے ہیں کہ امریکی ہم منصب ضروری اقدامات اٹھائیں گے اور وائی پی جی سے اپنے تعلقات کو ختم کریں گے، جو پی کے کے سے علیحدہ نہیں’۔ان کا کہنا تھا کہ ‘اہم انہیں یاد دلانا چاہتے ہیں کہ شام میں ہمارے اتحادی اور اسٹریٹجک شراکت دار، امریکا اور امریکی فوجیوں کی جانب سے وائی پی جی کی حمایت کسی صورت بھی قابل قبول نہیں ہے’۔