ینگون(آئی این پی)میانمار کی خاتون سربراہ آنگ سانگ سوچی نے اعتراف کیا ہے کہ ہماری جماعت کو ضمنی انتخابات میں شکست کا منہ دیکھنا پڑا، انتخابات میں شکست حکومت کیلئے الارمنگ ہے۔ بین الاقوامی میڈیسا کے مطابقمیانمار کی ریاستی سربراہ آنگ سانگ سوچی نے اعتراف کیا ہے کہ ملک میں منعقدہ ضمنی انتخابات میں انہیں 6 حلقوں میں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے جو تنازعات میں گھری
حکومت کے لیے موزوں صورت حال نہیں ہے۔آنگ سان سوچی اور اس کی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی (این ایل ڈی)نے 2015 میں فوجی حکمرانی کے دہائیوں بعد انتخابات میں تاریخی فتح حاصل کر کے حکومت بنائی تھی۔خیال رہے کہ ان کا دور تنازعات میں گھرا ہوا ہے جس میں کیچن اور شین سمیت کئی ریاستوں میں خانہ جنگی اور سنگین صورت حال اور لسانی گروہوں سیفوج کے امن مذاکرات شامل ہیں۔آنگ سان سوچی کو ملک کے ایوان بالا اور ایوان زیریں کے علاوہ علاقائی اسمبلیوں کے 13 حلقوں میں ہونے والے ضمنی انتخابات کے نتائج کے بعد مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔این ایل ڈی کے ترجمان ڈاکٹر مایو نیونٹ کا کہنا تھا کہ اس وقت ہم نے 7 نشستیں جیتیں ہیں اور 6 جگہوں میں شکست ہوئی ہے۔جن 6 نشستوں میں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے ان میں سے 4 نشسیں اس سے قبل ان کے پاس تھیں۔یونین الیکشن کمیشن کی جانب سے تاحال سرکاری نتائج کا اعلان نہیں کیا ہے تاہم غیر حتمی نتائج کے مطابق فوجی اتحاد میں شامل یونین سولیڈیریٹی اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی نے این ایل ڈی کو 3 حلقوں میں شکست دی ہے۔ضمنی انتخبات میں کئی نشستوں میں ووٹرز کا پلڑا لسانی جماعتوں کے حق میں بھی گیا ہے جبکہ ریاست رخائن کی ریاستی یاتھیدونگ میں عوام نے اپنا ووٹ روہنگیا مسلمانوں کے خلاف کارروائیوں میں ملوث بدھسٹ لسانی گروپ کی حمایت کرنے والے مشہور سیاست دان کے بیٹے کو دیا ہے۔ڈاکٹر مایو نیونٹ کا کہنا تھا کہ ان 6 نشستوں میں ان کی جماعت کی ناکامی کی وجہ لسانی گروہوں اور حکومت کے لیے کام کرنے والے افرد میں ان کی ناپسندیدگی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ہم نے سنا تھا کہ لسانی گروہ امن عمل کے حوالے سے ہماری کارکردگی پر خوش نہیں ہیں۔سیاسی تجزیہ نگار ماونگ ماونگ سو کا کہنا تھا کہ ان حلقوں میں کم ٹرن آوٹ کے باعث این ایل ڈی کو
شکست خوردہ نتائج کا سامنا کرنا پڑا اور ووٹرز کے اس رجحان سے انہیں 2020 کے انتخابات میں بھی اثر پڑے گا۔انہوں نے کہا کہ فوجی اتحاد میں شامل یو ایس ڈی پی کو ان کے مقابلے میں غیر متزلزل حمایت حاصل ہے۔ماونگ نے کہا کہ گوکہ این ایل ڈی کے حامیوں کی بڑی تعداد ہے لیکن اس وقت وہ لسانی گروہوں اور دانشوروں کے ساتھ ساتھ میڈیا کی حمایت کھو رہے ہیں۔