واشنگٹن(مانیٹرنگ ڈیسک) امریکہ کی جانب سے وقتاً فوقتاً خفیہ دستاویزات سامنے لائی جاتی ہیں جن میں ایسی معلومات سامنے لائی جاتی ہیں جن کے عام ہونے سے امریکہ کے مفادات کو نقصان نہیں پہنچتا ہے، امریکی خفیہ دستاویزات میں 1954ء کے وہ سفارتی مراسلے بھی شامل ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ
افغانستان کی طرف سے پاکستان کا حصہ بننے کی کوشش کی جا رہی تھی اور اس سلسلے میں امریکہ سے بھی مدد مانگی جا رہی تھی۔ 14 اکتوبر 1954ء کے ایک سفارتی مراسلے جس کا عنوان تھا، افغانستان پاکستان انضمام، اس میں لکھا گیا کہ افغانستان کے وزیر خارجہ کی طرف سے درخواست کی گئی ہے کہ افغانستان کا پاکستان کے ساتھ انضمام کر دیا جائے اور اس ضمن میں امریکہ سے مدد کی درخواست کی گئی ہے، اس مراسلے میں کہا گیا کہ اُن کا دعویٰ ہے کہ افغانستان کو سوویت اقتصادی قبضے سے محفوظ رکھنے کا یہ واحد راستہ ہے اور اس ملک کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ بھی بن چکا ہے، اس مراسلے میں کہا گیا کہ پاکستان کے وزیراعظم محمد علی، جن سے پہلے بھی رابطہ کیا گیا ہے، اس منصوبے کو مشکوک محسوس کرتے ہیں۔ ایک اور مراسلے میں لکھا گیا کہ دراصل افغان اور پاکستانی حلقوں کے درمیان کسی قسم کی کنفیڈریشن پر بات ہوئی ہے لیکن اس بات کا کم امکان ہے کہ کراچی اور کابل کے حکام انضمام پر اتفاق کرپائیں گے، مراسلے میں لکھا گیا کہ اس کی وجہ دونوں کی اندرونی پیچیدگیاں اور سوویت و بھارتی مخالفت ہے۔ امریکہ کی جانب سے پیش کی گئی خفیہ دستاویزات میں مزید بہت سے انکشافات موجود ہیں۔ امریکہ کی جانب سے وقتاً فوقتاً خفیہ دستاویزات سامنے لائی جاتی ہیں جن میں ایسی معلومات سامنے لائی جاتی ہیں جن کے عام ہونے سے امریکہ کے مفادات کو نقصان نہیں پہنچتا ہے