واشنگٹن (انٹرنیشنل ڈیسک)امریکہ نے اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق کے ممبران پر ’منافق‘ ہونے اور کونسل کے اسرائیل مخالف ہونے کا الزام لگاتے ہوئے کونسل کی ممبرشپ چھوڑ دی ہے۔امریکہ کی اقوام متحدہ میں سفیر نکی ہیلی نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق منافقانہ ہے اورانسانی حقوق کا مذاق بنا رہی ہے۔امریکہ نے اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق پر اسرائیل مخالف ہونے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس کونسل کا ممبر رہنے کے فیصلے پر نظرثانی کر رہا ہے۔
اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق 2006 میں قائم کی گئی تھی اور کونسل کو ان ممالک کو ممبران بنانے پر تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا تھا جن ممالک کے انسانی حقوق کے ریکارڈ پر سوال اٹھتے ہیں۔اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے ایک بیان میں امریکی فیصلے کے حوالیس کہا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ امریکہ کونسل کا ممبر رہے۔اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے کمشنر زید رعد الحسین نے امریکی فیصلے کومایوس کن لیکن حیران کن نہیں قرار دیا ہے۔امریکہ کی جانب سے یہ فیصلہ ایسے وقت کیا گیا ہے جب ٹرمپ انتظامیہ کی غیر قانونی طور پر امریکہ آنے والے تارکین وطن کو ان کے بچوں سے علیحدہ کرنے کی پالیسی کو شدید تنقید کا سامنا ہے۔زید رعد الحسین نے ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسی کوبے ضمیر قرار دیا ہے۔امریکہ کے اس فیصلے سے ان ممالک کو پریشانی ہو گی جو دنیا بھر میں انسانی حقوق کے تحفظ اور فروغ کے لیے امریکہ کی جانب دیکھتے ہیں۔امریکہ کے ہمیشہ ہی سے اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق کے ساتھ تعلقات اچھے نہیں رہے ہیں۔ بش انتظامیہ نے 2006 میں اس کونسل کے قیام پر اس کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا تھا۔اس وقت اقوام متحدہ میں امریکی سفیر جان بولٹن تھے جو اس وقت صدر ٹرمپ کے نیشنل سکیورٹی کے مشیر ہیں۔امریکہ اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق کا دوبارہ ممبر 2009 میں اوباما انتظامیہ میں ممبر بنا۔امریکہ کے کئی اتحادیوں نے اس پر کونسل میں رہنے پر زور دیا ہے۔
وہ ممالک امریکہ کی اقوام متحدہ پر تنقید کے حق میں ہیں ان کا بھی خیال ہے کہ امریکہ کونسل میں رہ کر اصلاحات کے لیے کام کرے۔نکی ہیلی نے کونسل کی ممبر شپ چھوڑنے کا اعلان وزیر خارجہ مائیک پومپیو کے ہمراہ مشترکہ پریش کانفرنس میں کیا۔نکی ہیلی نے کونسل کوسیاسی تعصب کی گندگی قرار دیتے ہوئے کہا کہ میں اس بات کو بالکل واضح کرنا چاہتی ہوں کہ اس قدم کا مقصد انسانی حقوق کی ذمہ داریوں سے پیچھے ہٹنا نہیں ہے۔
یاد رہے کہ گذشتہ سال نکی ہیلی نے اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ماننا مشکل ہے کہ اسرائیل کے خلاف قراردادیں منظور کی جاتی ہیں لیکن وینزویلا کے خلاف ایک قرار داد پر بھی غور نہیں کیا جاتا جہاں درجنوں مظاہرین کو قتل کر دیا گیا۔انھوں نے مزید کہا کہ اسرائیل ایک واحد ملک ہے جو مستقل طور پر اس کونسل کے ایجنڈے پر ہوتا ہے۔ 2006 میں اس کونسل کو اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انسانی حقوق کی جگہ قائم کیا گیا۔ اس کی وجہ یہ تھی۔
کہ اس کمیشن میں ان ممالک کو ممبران بنایا گیا جن کے انسانی حقوق کے ریکارڈ پر سوالیہ نشان تھے۔اس کونسل کے 47 ممبران تین سال کے لیے منتخب کیے جاتے ہیں۔ کونسل کا مقصد قراردادوں کے ذریعے انسانی حقوق کی پامالیوں پر روشنی ڈالنا ہے تاہم اس کونسل کو بھی اس کے ممبران کے حوالے سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ 2013 میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے اس وقت آواز اٹھائی جب چین، روس، سعودی عرب، الجیریا اور ویتنام کو ممبر منتخب کیا گیا۔