واشنگٹن (مانیٹرنگ ڈیسک)امریکہ میں سائنس جرنل میں شائع ہونے والی ایک تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انٹرنیٹ پر جھوٹی خبریں سچ کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے پھیلتی ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غلط معلومات کو تیزی سے پھیلانے میں اہم کردار روبوٹس یا بوٹس کا نہیں بلکہ خود انسانوں کا ہے۔سائنس نامی جرنل میں شائع ہونے والی تازہ تحقیق کیلئے تحقیق کاروں نے 2006 سے لے کر 2017 تک ٹوئٹر پر سوا لاکھ سلسلہ وار ٹویٹس کا تجزیہ کیا۔
تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ ان متنازع خبروں کو 30 لاکھ افراد نے 45 لاکھ بار ٹویٹ کیا اس رپورٹ کو مشہور یونیورسٹی ایم آئی ٹی کے تحقیق دانوں نے مرتب کیا ہے۔تجزیہ کاروں نے خبر کے غلط یا صحیح ہونے کا تعین کرنے کیلئے چھ خودمختار تنظیموں پر انحصار کیا جن کا کام غلط خبر کی نشاندہی کرنا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا کہ صحیح خبر کے مقابلے غلط خبر کے ری ٹویٹ ہونے کے امکانات 70 فیصد زیادہ ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا کہ 1500 افراد تک پہنچنے میں غلط خبر کے مقابلے میں درست خبر چھ گنا زیادہ وقت لیتی ہے۔تحقیق دانوں کے مطابق غلط خبریں انوکھے نظریات کی وجہ سے زیادہ تیزی سے پھیلتی ہیں جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ان خبروں کو اس لیے شیئر کیا جاتا ہے کہ وہ صحیح خبر سے زیادہ حیران کن ہوتی ہیں۔رپورٹ کے مطابق غلط خبر ٹویٹ کرنے پر زیادہ جواب آتے ہیں جن میں حیرت، خوف اور نفرت کا اظہار کیا جاتا ہے۔ صحیح خبر کے باعث افسردگی، توقع اور اعتماد حاصل ہوتا ہے۔تازہ رپورٹ میں کہا گیا کہ ٹوئٹر پر غلط خبروں کے تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اور ایسی خبروں میں مزید اضافہ اس وقت ہوتا ہے جب کوئی بڑا واقعہ ہو جیسے 2012 اور 2016 کے امریکی صدارتی انتخاب۔رپورٹ میں کہا گیا کہ غلط خبریں پھیلانے والوں کی فالوئنگ بہت زیادہ نہیں ہے۔ دراصل جو غلط خبریں پھیلاتے ہیں ان کے کم فالوورز ہوتے ہیں، کم لوگوں کو فالو کرتے ہیں، ٹوئٹر پر زیادہ فعال نہیں ہوتے، ان کے اکاؤنٹس بہت کم تصدیق شدہ ہوتے ہیں اور وہ بہت کم عرصہ پہلے ٹوئٹر پر آئے ہوتے ہیں۔