نئی دہلی(مانیٹرنگ ڈیسک) بھارت کی جانب سے نیپال کو پٹرول، ادویات حتٰی کہ کھانے پینے کی چیزوں کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑاتھا۔ اس صورت حال نے بھارت اور نیپال کے رشتوں میں تلخی گھول دی تھی اب بھارت کے پڑوسی ملک نیپال میں ہوئے عام انتخابات میں بائیں بازو کے ماؤ نوازاتحاد کی شاندار کامیابی کو بھارت کے لیے بری خبر قرار دیا جا رہا ہے اور آئندہ حکومت کے چین کی جانب یقینی جھکاؤ نے نئی دہلی کی پریشانیاں بڑھا دی ہیں۔
غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق ہمالیائی ریاست نیپال میں سات دسمبر کو منعقد ہونے والے عام انتخابات میں بائیں بازو کی کمیونسٹ ماؤ نواز اتحا د نے زبردست کامیابی حاصل کی ہے اور سابق وزیر اعظم کے پی شرما اولی جلد ہی ملک کا اقتدار سنبھال لیں گے جو حالیہ عرصے میں چین کے کافی قریبی آگئے ہیں۔نیپال، بھارت او رچین کے درمیان ایک بفر اسٹیٹ کی حیثیت رکھتا ہے۔ بھارت اور نیپال کے درمیان ماضی میں انتہائی قریبی اور دوستانہ تعلقات رہے ہیں۔ دونوں ملکوں کی سرحدیں کھلی ہوئی ہیں اور ایک دوسرے کے شہری کسی ویزا کے بغیر ایک دوسرے کے یہاں آجاسکتے ہیں۔ نیپال واحد ایسا ملک ہے جس کے شہری بھارتی فوج میں کام کرسکتے ہیں اور تھر ی اسٹار جنرل کے عہدہ تک ترقی پاسکتے ہیں۔ بھارت نیپال کی ہمیشہ مدد کرتا رہا ہے۔ 2015میں نیپال میں آئے ہلاکت خیز زلزلہ کے بعد بھارت نے امدادی اور بحالی کے کاموں میں کافی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا جس کی کافی ستائش بھی ہوئی۔لیکن وزیر اعظم کے پی اولی کی حکومت پارلیمنٹ میں اکثریت ثابت نہیں کرنے کی وجہ سے گِر گئی تو یہ الزام لگایا گیا کہ ان کی حکومت کو گرانے میں درپردہ بھارت کا ہاتھ ہے۔اولی حکومت میں ہی جب نیپال کا نیا آئین پیش کیا گیا تو مدھیشیوں نے مناسب نمائندگی نہیں دینے کا الزام لگاتے ہوئے اس کی زبردست مخالفت کی۔ مدھیشی دراصل نیپال میں آباد بھارتی نسل کے لوگوں کو کہا جاتا ہے۔
مدھیشیو ں نے حکومت کے خلاف پرتشدد مظاہرے شروع کیے تو بائیں بازو کی جماعتوں نے الزام لگایا کہ بھارت ان مظاہرین کی مدد کررہا ہے۔ پانچ ماہ تک چلنے والے مظاہرے اور ناکہ بندی نے نیپال کی اقتصادی حالت خراب کردی کیوں کہ وہ ضروری اشیاء کی سپلائی کے لیے بھارت پر ہی انحصار کرتا ہے۔ نیپال کو پٹرول، ادویات حتٰی کہ کھانے پینے کی چیزوں کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑا۔ اس صورت حال نے بھارت اور نیپال کے رشتوں میں تلخی گھول دی۔