نیو یا رک (آن لائن)اقوامِ متحدہ کے ایک اہلکار کی جانب سے اس انکشاف کے بعد کہ اوپیوآئڈ ٹرامیڈول نامی دوا اکثر خودکش بمباروں کی جیبوں سے مل رہی ہیں ادارے نے خبردار کیا ہے کہ مغربی افریقہ میں اس کی سمگلنگ میں اضافہ ہو رہا ہے۔اقوامِ متحدہ کے منشیات اور جرائم کے ادارے (یو این او ڈی سی) کا کہنا ہے کہ 2013 سے پکڑی جانے والی اوپیوآئڈ کی مقدار پہلے کے مقابلے میں بہت زیادہ ہو گئی ہے۔
2013 سے پہلے یہ مقدار تقریباً 300 کلو تھی جبکہ اب یہ بڑھ کر سالانہ تین ٹن ہو گئی ہے۔اس سال ستمبر میں نائجر میں ایسے ڈبوں سے تیس لاکھ گولیاں پکڑی گئیں جن پر اقوامِ متحدہ کے نشان لگے ہوئے تھے۔یہ گولیاں بوکو حرام جیسی اسلامی شدت پسند تنظیموں میں کافی مقبول سمجھی جاتی ہیں۔ان گولیاں کو قانونی طور پر درد سے نجات والی ادوایات کے طور پر حاصل کیا جا سکتا ہے۔ لیکن خیال کیا جاتا ہے کہ انھیں ممکنہ حملہ آوروں کو پر سکون رکھنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔برطانوی اخبار گارڈین نے پہلے یہ خبر دی تھی کہ بوکو حرام کے لوگ خودکش مشن پر بھیجنے سے پہلے ان گولیوں کو کھجوروں میں رکھ کر بچوں کو کھلاتے ہیں۔یو این او ڈی سی کے مغربی اور وسطی افریقہ کے نمائندے پیئر لاپیک نے خبردار کیا کہ اس بات کا انتظار نہیں کیا جا سکتا کہ صورتحال قابو سے باہر ہو جائے ‘ اس سے عالمی سطح پر سکیورٹی کے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔’پیئر لاپیک کے مطابق ان مشتبہ افراد کی جیبوں سے مسلسل اوپیوآئڈ ٹرامیڈول مل رہی ہے جنھیں دہشتگردی کے شبے میں گرفتار کیا جاتا ہے۔ لاپیک نے کہا کہ اْن حملہ آوروں کے پاس سے بھی یہ گولیاں ملی ہیں جنھوں نے خودکش حملے کیے ہیں۔’یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بوکو حرام اور القاعدہ کے شدت پسندوں کو، جن میں بچے اور بچیاں بھی شامل ہیں، یہ گولیاں کون مہیا کر رہا ہے۔’یو این او ڈی سی کا کہنا ہے کہ یہ گولیاں جرائم پیشہ گروہ عام طور پر ایشیا
سے بذریعہ خلیجی ممالک سمگل کر رہے ہیں۔ یہ صورتحال افریقہ کے اْن علاقوں میں ایک بحران کی شکل اختیار کر رہی ہے جسے ساحل کہا جاتا ہے خاص طور پر شمالی مالی اور نائجر میں جہاں نوجوان آبادی کی شکل میں سمگلروں کو ایک بڑی منڈی مل رہی ہے۔مالی میں ایک خاتوں نے بتایا کہ وہ اکثر ایسے بچوں کو دیکھتی ہیں جنھیں بھوک سے بچنے کے لیے یہ گولیاں دی جاتی ہیں۔