اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)روہنگیا مسلمانوں پر بڑھتے مظالم کے بعد اس بات کا امکان پیدا ہو رہا ہے کہ رخائن عسکریت پسند تنظیموں کا نیا گڑھ بن سکتا ہے تاہم اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ صورتحال امریکہ اور یورپی کےلئے فائدہ مند اور چین کیلئے نقصان دہ ہو گی۔ روزنامہ امت کی ایک رپورٹ کے مطابق جرمن میڈیا رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کئی مبصرین اس مسئلے کو خطے میں
بڑھتے ہوئے چینی اثر و رسوخ کے تناظر میں بھی دیکھ رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ برما میں مسلح تنظیموں کی موجودگی سے امریکہ اور مغرب کو فائدہ ہو گا۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ یہ تنظیمیں جہاں جہاں جاتی ہیں پیچھے پیچھے امریکہ آجاتا ہے۔ پہلے انہوں نے افغانستان میں امریکہ کے آنے کا راستہ ہموار کیا پھر انہوں نے شام میں اس کی مداخلت کا جواز بنایا۔ انہوں نے لیبیا کو برباد کر کے وہاں پر مغربی مداخلت کا راستہ ہموار کیا۔ اب اگر برما میں گڑ بڑھ ہوتی ہے تو اس کا سب سے زیادہ نقسان چین کو ہو گا۔ برما، ملائیشیا، انڈونیشیا میں چین کی اچھی خاصی سرمایہ کاری ہے۔ اگر برما میں امریکی مداخلت ہوئی تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ایک طرف امریکہ افغانستان میں ہے اور دوسری طرف برما میں یعنی چین دونوں طرف سے امریکہ کے گھیرے میں ہو گا۔ واضح رہے کہ گزشتہ روزہ القاعدہ نے بھی برما میں روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام کی مذمت کے حوالے سے ایک بیان جاری کرتے ہوئے مسلمانوں کو روہنگیا مسلمانوں کی مدد کیلئے آگے آنے کی اپیل کی تھی۔ جس کا مطلب ہے کہ القاعدہ اور ان جیسی کئی تنظیمیں برما کی صورتحال پر اس وقت گہری نظر رکھے ہوئے ہیں اور امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ممکنہ طور پر کئی تنظیموں نے وہاں پر اپنے آپریشنز شروع کرنے کیلئے لائحہ عمل کی تیاری بھی شروع کر دی ہو۔