کابل(این این آئی)بیرون ملک سفر کرنے والے افراد، غیر ملکی ٹیلی ویڑن چینلوں اور سیٹلائٹ ٹی وی تک رسائی نے حالیہ برسوں میں افغان خاندانوں کی زندگی تبدیل کر دی ہے، خاص طور پر افغانستان کے بڑے شہروں میں یہ مناظر دیکھنے کو ملے ہیں،میڈیارپورٹس کے مطابق ملک کی نئی نسل کا رجحان فیشن کی طرف بڑھ رہا ہے۔ افغانستان میں بننے سنورنے اور خوبصورت لگنے کی اس خواہش میں اضافہ ہوا ہے
اور افغانستان کا روایتی لباس اب مغرب میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔لیکن اس خوبصورتی کی ایک قیمت بھی چکانی پڑتی ہے۔کابل کے رہائشی سید داؤد باقاعدگی سے سیلون جاتے ہیں اور ان کے اندر فیشن کی خواہش ایک لڑکی سے محبت کی وجہ سے پیدا ہوئی۔ اب وہ شادی شدہ ہیں اور ان کے بقول فیشن کے شوق نے انھیں ایک اچھی لڑکی تلاش کرنے میں زبردست مدد دی۔کابل کی دکانوں میں بہت ساری تبدیلیاں دیکھی جا سکتی ہیں۔ نوجوان افغان اب فیشن ایبل بن چکے ہیں اور دکانوں نے بھی اپنے گاہکوں کے لیے ایرانی، ترکی، عربی اور ہندوستانی اور پاکستانی لباس رکھنا شروع کر دیے ہیں۔سعدیہ افغانستان کی نیشنل ٹیم کی کپتان ہیں۔ ایک نئی نسل کی نمائندہ ہونے کے حوالے سے ان کا فیشن اور میک اپ کا شوق بھی مختلف ہے۔سعدیہ کے بازو پر ایک ٹیٹو بھی بنا ہوا ہے، جس پر لکھا ہے کچھ بھی ناممکن نہیں۔وہ افغانستان کی پہلی خاتون کھلاڑی ہیں جنھوں نے سنہ 2016 میں برازیل اولمپکس میں شرکت کی تھی۔وہ کہتی ہیں کہ یہ آزادی حاصل کرنے کے لیے انہیں بہت سے قدامت پرست خیالات سے لڑنا پڑا۔ایسا لگتا ہے کہ افغان لڑکیوں کو قدامت پسند خیالات کا سامنا تو کرنا پڑ رہا ہے لیکن ان پر حکومت کی جانب سے کسی قسم کا کوئی دباؤ نہیں ہے۔