واشنگٹن(آئی این پی) ٹرمپ انتظامیہ نے پاکستان سے وعدہ شدہ 225 ملین ڈالر کی فوجی امداد روکتے ہوئے نئی شرائط عائد کردیں،اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے مطابق یہ شرائط امریکا کو نئے وعدوں سے پہلے جائزہ لینے کا موقع فراہم کریں گی کہ اسلام آباد امریکا کے ساتھ کتنا تعاون کررہا ہے۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے بیان میں کہا گیا کہ محکمے نے 30 اگست کو پاکستان سے وعدہ کی گئی 225 ملین ڈالر فوجی
امداد کو پابند کرنے کے ارادے سے کانگریس کو آگاہ کیا، محکمہ اس امداد کے استعمال اور امداد کو فارن ملٹری فنانسنگ (ایف ایم ایف) کے معاہدے کے تحت مختص کرنے پر پابندی عائد کرتا ہے۔واضح رہے کہ ایف ایم ایف ممالک کو امریکی ہتھیاروں اور دفاعی ساز و سامان کی خریداری کے لیے گرانٹ اور قرضے ادا کرتا ہے جبکہ امریکا بھی فوجی تربیت اور دفاعی سہولیات کے حصول میں مدد فراہم کرتا ہے۔اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کا کہنا تھا کہ ہماری نئی جنوبی ایشیائی حکمت عملی سے ہم آہنگ، یہ فیصلہ پاکستان میں سیکیورٹی معاونت کے نئے منصوبوں سے قبل باہمی تعاون کی سطح کا جائزہ لینے کا موقع فراہم کرے گا۔بدھ کے روز امریکی کانگریس کو بھیجے جانے والے اس اعلامیے میں انتطامیہ کا کہنا تھا کہ وعدہ شدہ امداد کو ایک ایسکرو اکانٹ میں رکھا جارہا ہے اور پاکستان اگر اپنے قبائلی علاقوں میں موجود دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے افغاستان میں سرحد پار حملے روکتا ہے تو ہی اس اکانٹ تک رسائی حاصل کرسکے گا۔خیال رہے کہ سابقہ امریکی انتظامیہ نے 2015 میں عہد کرتے ہوئے 2016 میں پاکستان کو یہ رقم جاری کرنے کا وعدہ کیا تھا۔تاہم ٹرمپ انتظامیہ نے فنڈز ریلیز کرنے سے انکار کرتے ہوئے ادائیگی کو مزید ملتوی کرنے کے لیے نئی شرائط عائد کردیں۔فوجی امداد کے روکے جانے والے 225 ملین ڈالر 2016 میں
کانگریس کی جانب سے منظور شدہ تقریبا 1.1 بلین ڈالر امریکی امداد کا سب سے بڑا حصہ ہے۔گوکہ امریکی میڈیا میں سامنے آنے والے اعداد و شمار کے مطابق امریکا کی جانب سے پاکستان کو ادا کی جانے والی سالانہ امداد کا حجم 1.1 بلین ڈالر کے قریب بنتا ہے تاہم 2011 سے دونوں ممالک کے کمزور ہوتے تعلقات کی وجہ سے ہر سال کئی ملین ڈالرز کی امداد مختلف پابندیوں کے نام پر روک دی جاتی ہے۔واضح رہے تعلقات میں
کمزوری کی وجہ 2011 میں ایبٹ آباد سے اسامہ بن لادن کا دریافت ہونا تھی۔اپنے بیان میں اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کا مزید کہنا تھا کہ امریکا پاکستان کے ساتھ باہمی تعاون کو اہمیت دیتا ہے اور اس کے فروغ کا خواہاں ہے مگر امریکا چاہتا ہے کہ اسلام آباد دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مزید کام کرے۔بیان میں کہا گیا صدر یہ واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ خطے کے لیے بڑا خطرہ پاکستان میں موجود دہشت گرد گروہوں کے خلاف پاکستانی
حکومت کی جانب سے فیصلہ کن کارروائی کے منتظر ہیں، امریکی مفاد کے لیے اہم ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کو روکے۔اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے مطابق خطے میں ہماری کوششوں کا حصہ بن کر پاکستان بہت فائدہ حاصل کرسکتا ہے۔بیان میں امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ ریکس ٹلرسن کی جانب سے گذشتہ ہفتے جاری ہونے والے بیان کا حوالہ بھی دیا گیا ہم پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار تاکہ دہشت گرد
تنظیموں سے خود کو بچانے میں پاکستان کی مدد کرسکیں۔واضح رہے کہ امریکا کا دعوی ہے کہ 2002 سے لے کر اب تک پاکستان کو امداد کی مد میں 33 بلین ڈالر سے زائد ادا کیے جاچکے ہیں لیکن جون تک واشنگٹن کی خصوصی سفیر برائے افغانستان اور پاکستان لورل ملر نے گذشتہ ہفتے پی بی ایس نیوز کو بتایا تھا کہ اصل رقم اس سے کہیں کم ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ایک طویل عرصے تک امریکا نے پاکستان کی معقول حد تک معاونت
کی، بالخصوص سیکیورٹی کے حوالے سے تاہم گذشتہ سالوں کے دوران اس معاونت میں واضح کمی آئی ہے اور ممکنہ طور پر یہ مزید کم ہوجائے گی۔خصوصی سفیر نے مزید کہا تھا کہ امریکا اب پاکستان کو اربوں ڈالر ادا نہیں کرتا۔مگر دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان کو حاصل امریکی معاونت کا استعمال کرکے اسلام آباد کو پالیسیاں تبدیل کرنے پر قائل کریں گے۔امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کا اس حوالے
سے کہنا ہے کہ امریکا پاکستان کی معاونت کو بلکل ختم کرنے کی خواہش نہیں رکھتا، ٹرمپ انتظامیہ کے حکام کا کہنا ہے کہ وہ پاکستان کے رویے کو تبدیل کرنے کے لیے امداد کا استعمال کرنا چاہتے ہیں۔تاہم واشنگٹن میں موجود سفارتی مبصرین کہتے ہیں کہ اوباما انتظامیہ نے بھی 8 نئے ایف 16 فائٹر طیاروں کی فروخت کا استعمال کرکے پاکستانی پالیسیوں کو تبدیل کرنے کی کوشش کی تھی جو فائدہ مند ثابت نہ ہوئی۔