بیجنگ(آئی این پی)بھارت اپنی افواج واپس بلائے ورنہ چین کالا پانی ، اتر کھنڈ اور کشمیر میں اپنی افواج داخل کر سکتا ہے،چین کا کہنا ہے کہ اگر دوکھلم سیکٹر بھارت کی نظر میں متنازعہ ہے تو نیپال کے ساتھ بھارت کا کالا پانی تنازعہ اور پاکستان کے ساتھ کشمیر تنازعہ بھی حل طلب ہے، جب تک بھارت کا ایک بھی فوجی دوکھلم میں موجود ہے تو بھارت سے کسی قسم کے مذاکرات نہیں کئے جا سکتے، ہر سطح پر مذاکرات بھارتی افواج کی واپسی سے مشروط ہیں،
چین کا کہنا ہے کہ بھارت سے کسی بھی قسم کے مذاکرا ت پر ہمیں عوام کو اعتماد میں لینا ہوتا ہے کیوں کہ سب جانتے ہیں کہ بھارت دو چہرے رکھتا ہے، چین کے خارجہ امور اور اوقیانوس امور کے ڈپٹی ڈائریکٹر وان ویلی نے بھارتی میڈیا کے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بھارت سے کسی بھی قسم کے مذاکرات نہیں کئے جا سکتے کیوں کہ بھارت سے کسی بھی نظریہ پر مذاکرات سے قبل ہمیں چین کی عوام کو اعتماد میں لینا ہوتا ہے اقوام عالم جانتا ہے کہ بھارت دو چہرے رکھنے والا ملک ہے جو کبھی بھی کسی سے مخلص نہیں ہو سکتا۔ بھارت کو ہر حال میں اپنی افواج غیر مشروط واپس بلانا ہو گی اگر بھارت مزید تاخیر کرتا ہے تو اس اس کا خمیازہ بھگتنا ہو گا۔ بھارت کو سمجھنا چاہئے کہ چین بھی علاقائی تنازعات کی آڑ لیکر کالا پانی، اتر کھنڈ اور کشمیر میں اپنی افواج داخل کر سکتا ہے کیوں کہ بھارت کی نظر میں دوکھلم متنازعہ سرحد ہے تو چین کی نظر میں بھی یہ علاقے متنازعہ ہیں۔ بھارت کا ایک تنازعہ نیپال کے ساتھ کالا پانی کی صورت میں دوسرا کشمیر کی صورت میں پاکستان کے ساتھ اور اترکھنڈ میں علیحدگی پسند تحاریک چین کے لئے مداخلت کا کافی مواد فراہم کرتیں ہیں۔ لیکن بیجنگ خاموش ہے اور اس خاموشی کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ چین اپنی خودمختاری کا دفاع نہیں کر سکتا۔جب تک بھارت کا ایک بھی فوجی دوکھلم میں موجود ہے تو بھارت سے کسی قسم کے مذاکرات نہیں کئے جا سکتے۔ ہر سطح پر مذاکرات بھارتی افواج کی واپسی سے مشروط ہیں۔
چینی عوام کو حکومت چین پر مکمل اعتماد ہے کہ چینی فوج اور حکومت چین کی عملداری کو چیلنج کرنے والے کو منہ توڑ جواب دے سکتی ہے۔ چین کی کمزوری کا تو سوال ہی نہیں ہے لیکن ہم نہیں چاہتے کہ کسی کا نقصان ہو ۔بھارت کا یہ اعتراض بھی بھونڈا ہے کہ چین یہاں سڑک کی تعمیر میں مصروف ہے جبکہ یہ متنازعہ ہے تو بھارت متنازعہ علاقوں میں بھارت کیا کر رہا ہے۔واضح رہے کہ جون میں بھارت نے اپنی افوج بھوٹان اور چین مابین سرحدی علاقہ دوکھلم میں داخل کر دی تھیں اور موقف اپنایا تھا کہ یہ متنازعہ علاقہ ہے۔