دوحہ(این این آئی)چار عرب ممالک کی طرف سے قطر کے سفارتی اور اقتصادی بائیکاٹ پر اب تک دوحہ کی طرف سے یہ دعویٰ کیا جا رہا تھا کہ بائیکاٹ سے اسے کوئی بڑا اقتصادی دھچکا نہیں لگا ہے مگر قطری حکومت نے پہلی بار کھلے الفاظ میں اعتراف کیا ہے کہ بائیکاٹ تحریک کے نتیجے میں اسے غیرمعمولی اقتصادی خسارے کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
عرب ٹی وی کے مطابق قطر کی مانیٹری پالیسی کے ایک تجزیہ نگار خالد الخاطر نے کہا کہ ان کے ملک نے قطری ریال کو ڈالر سے الگ تھلگ کرنے کی پالیسی اپنائی ہے۔ اس حوالے سے عالمی بنکوں نے بھی قطر کو سخت الفاظ میں انتباہ کیا تھا اور اسے دوحہ کی ہٹ دھرمی کا خطرناک ترین نتیجہ قرار دیا جا رہا ہے۔ماہرین کا کہنا تھا کہ قطری ریال کو ڈالر سے الگ کرنے کا اعلان دوحہ کی طرف سے غیرمعمولی اقتصادی خسارے کا پہلا اور کھلا اعتراف جرم ہے۔بیشتر خلیجی ممالک کا سب سے بڑا ذریعہ آمدن تیل ہے۔ تیل پیدا کرنے والے خلیجی ملکوں میں قطر بھی شامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قطرکی قومی کرنسی بھی ڈالر سے مربوط تھی مگر امریکی فیڈریشن ریزرو کونسل منافع کی شرح مقرر کرنے پر مجبور ہوئی ہے۔مگر گذشتہ ماہ جب سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین اور مصر نے قطر سے سفارتی تعلقات اور فضائی نقل وحمل منقطع کیے تو اس کے نتیجے میں دوحہ کو غیرمعمولی معاشی خسارے کا سامنا کرنا پڑا تھا۔کرنسی کے امور کے ماہر خالد الخاطر کا کہنا ہے کہ قطر نے امریکی کرنسی سے علاحدگی کا فیصلہ پہلی بار نہیں کیا۔ سنہ 2008ء میں بھی قطرکے مرکزی بنک نے امریکی شرح منافع میں کمی کے بعد ڈالر سے تعلق ختم کردیا تھا۔ تب قطر کو ملنے والے شرح منافح کی مقدار صرف تک گر گئی تھی۔الخاطر کا کہنا تھا کہ قطری حکومت نے دو سال کے دوران شرح منافح 2 فی صد مقرر کی ہے تاکہ کرنسی مارکیٹ میں استحکام لانے میں مدد لی جاسکے۔
ان کا کہنا ہے کہ قطر کو جس طرح کے معاشی بحران کا اب سامنا ہے آج سے چند برس قبل بھی ایسا ہی تھا۔ ماضی کی نسبت اب قطری کرنسی کسی حد تک مستحکم ہے۔