کابل/واشنگٹن (آئی این پی)افغانستان کے جنوبی صوبہ قندھار میں فوجی اڈے پر طالبان کے حملے میں 40افغان فوجی ہلاک اور 30 زخمی ہوگئے جبکہ افغان وزرت دفاع نے حملے کو ناکام بناتے ہوئے 80شدت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے،ادھر سڑک کنارے نصب بم حملے میں گورنر اور انکے 5محافظ ہلاک ہوگئے ،طالبان نے حملے کی ذمہ داری قبول کرلی،ملک میں شدت پسندوں کے حملوں میں پچھلے چھ ماہ کے دوران 10 افغان صحافی ہلاک ہوگئے۔
بدھ کو افغان میڈیا کے مطابق جنوبی صوبہ قندھار کے ضلع خاکریز کے علاقے کرزلی میں واقع فوجی اڈے پر طالبان کے حملے میں 40 افغان فوجی ہلاک اور 30 زخمی ہوگئے۔ وزارتِ دفاع کے ترجمان دولت وزیری نے یہ دعوی بھی کیا کہ افغانستان کے فوجیوں نے بہادری سے مقابلہ کرتے ہوئے اس حملے کو ناکام بنادیا جب کہ فوجی کیمپ پر حملہ کرنے والے طالبان جنگجوں میں سے 80 کو ہلاک کردیا گیا۔علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ گزشتہ رات کرزلی فوجی کیمپ کی طرف درجنوں کی تعداد میں ٹرک جاتے ہوئے دیکھے گئے جن میں سینکڑوں طالبان سوار تھے جبکہ افغان فوجیوں اور طالبان جنگجوں کے درمیان لڑائی کئی گھنٹوں تک جاری رہی جس میں دونوں جانب سے بھاری اسلحے کا بھی استعمال کیا گیا۔عینی شاہدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ افغان فوج نے اپنی فضائیہ سے مدد لی تھی لیکن افغان وزارتِ دفاع کے ترجمان نے اس بارے میں کچھ نہیں کہا۔طالبان نے ایک ٹوئٹر پیغام میں اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے ۔واضح رہے کہ افغانستان کا صوبہ قندھار ماضی میں طالبان کا اہم ترین مرکز اور غیر اعلانیہ دارالحکومت بھی رہا ہے جس کے بیشتر حصے پر آج تک طالبان کا کنٹرول ہے۔ خاکریز وہاں کے ان معدودے چند اضلاع میں شامل ہے جہاں افغان حکومت کا غلبہ ہے، تاہم ایسے مقامات پر آئے دن طالبان کی جانب سے حملے جاری رہتے ہیں۔گزشتہ کچھ عرصے میں افغانستان بھر میں طالبان کے حملوں میں نہایت تیزی دیکھی گئی ہے۔
ادھر افغانستان میں سڑک کنارے نصب بم حملے میں گورنر اور انکے 5محافظ ہلاک ہوگئے ،طالبان نے حملے کی ذمہ داری قبول کرلی۔افغان میڈیا کے مطابق صوبہ فراح کی تحصیل شبِ کوہ کے گورنر عبدالرحیم حیدری کی سرکاری گاڑی پر بم حملہ کیا گیا جس میں گورنر ہلاک ہو گئے ہیں۔فراح کے گورنر دفتر کے ترجمان ناصر مہری نے کہا ہے کہ شبِ کوہ کے علاقے درجو جان میں سڑک کے کنارے نصب بم اس وقت ریموٹ کنٹرول کے ذریعے اڑا دیا گیا جب حیدری کی سرکاری گاڑی وہاں سے گزر رہی تھی۔
مہری نے کہا کہ حملہ اس وقت کیا گیا جب حیدری پولیس چوکیوں کے کنٹرول کے لئے نکلے تھے اور حملے میں حیدری کے علاوہ ان 5 باڈی گارڈ بھی ہلاک ہو گئے ہیں۔حملے کی ذمہ داری طالبان نے قبول کر لی ہے۔ادھر ابلاغ پر نگاہ رکھنے والے ایک گروپ نے بتایا ہے کہ اس سال افغانستان میں طالبان اور داعش کے وفادار لڑاکوں کے شدت پسند حملوں میں اب تک 10 صحافی ہلاک ہوچکے ہیں۔
افغان صحافیوں کے تحفظ کی کمیٹی(اے جے ایس سی)نے کابل میں جاری کردہ ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ سال 2017 کے پہلے چھ ماہ کے دوران ہونے والی تشدد کی کارروائیوں میں 12 صحافی زخمی ہوئے۔گروپ کے سربراہ نجیب شریفی نے اخباری نمائندوں کو بتایا کہ وہ صحافیوں کے خلاف پرتشدد کارروائیوں کے 73 واقعات سے آگاہ ہے، جو سال 2016 میں اسی دورانیے کے مقابلے میں 35 فی صد کا اضافہ ہے۔انھوں نے بتایا کہ اِن پرتشدد کارروائیوں میں صحافیوں کا قتل،
مار پٹائی، زخمی کیے جانے، بے توقیر ہونے، ڈرانے دھمکانے اور ان کو حراست میں لیے جانے کے واقعات شامل ہیں۔شریفی نے توجہ دلائی کہ ہلاک ہونے والے یا تو دہشت گرد گروہوں کا براہِ راست نشانہ بنے یا پھر دہشت گرد حملوں کے نتیجے میں اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ذرائع ابلاغ سے تعلق رکھنے والی اس تنظیم نے بتایا ہے کہ خاص طور مشرقی افغانستان میں پرتشدد کارروائیوں میں اضافہ آچکا ہے، اِن شدت پسند کارروائی کی منصوبہ سازی کے پیچھے داعش کا ہاتھ ہے،
جب کہ جہاں دہشت گرد گروپ کافی تعداد میں موجود ہیں وہاں آئے روز صحافیوں کو دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ دوسری جانب امریکی وزیر دفاع جِم میٹس نے افغان فوج کے یونیفارم پر بے جا خرچ پر اظہار تشویش کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارے افغان ساجھے داروں کے یونیفارم اس طرح خریدنا، جس کام میں گذشتہ دس برس کے دوران ٹیکس دہندگان کے کروڑوں ڈالر ضائع ہوئے، دھیان دینے کی ضرورت ہے، چونکہ محکمے کی ذمہ داریاں اور بجٹ کا خیال کیا جانا لازم ہے۔
امریکی میڈیا کے مطابق جِم میٹس کا کہنا ہے کہ انسپیکٹر جنرل کی رپورٹ جس میں افغان قومی فوج کی وردیوں پر دو کروڑ 80 لاکھ ڈالر کی لاگت آنے کی بات کی گئی ہے، نہ صرف اسراف کے زمرے میں آتا ہے، بلکہ یہ ایک فرسودہ سوچ کی ایک مثال ہے۔پینٹاگان کے سربراہ نے یہ بیان پیر کو جاری ہونے والے ایک یادداشت نامے میں دیا ہے۔