اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) حادچات تمام خطر ناک پر فضائی حادثہ ایک خوفناک واقعے کی حیثیت رکھتا ہے جس کی خبر سامنے آتے ہی دنیا بھر میں یہ سوالات گردش کرنے لگتے ہیں کہ حادثہ کہاں پیش آیا۔
پائلٹوں کا کہنا تھا کہ جب طیارہ گرنے والا ہو تو پائلٹ اسے بچانے کی تگ و دو میں مصروف ہوتے ہیں لہٰذا ان کے آخری الفاظ عموماً تکنیکی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ وہ کچھ اور کہہ رہے ہوں۔ایک پائلٹ کا کہنا تھا ’’پائلٹوں کے آخری الفاظ عام طور پر اتنے شاندار نہیں ہوتے جیسا کہ ہم عام طور پر توقع کرتے ہیں۔ دراصل وہ اس وقت طیارے کو بچانے کی فکر میں ہوتے ہیں۔ وہ وہی کرتے ہیں جس کی انہیں تربیت دی گئی ہوتی ہے، یعنی ہوائی جہاز کو آخری لمحے تک اڑاتے رہنے کی کوشش۔‘‘ایک اور پائلٹ نے اس ضمن میں دو قابل ذکر مثالیں بھی دیں۔ اس پائلٹ نے بتایا کہ 1996ء میں حادثے کی شکار ہونے والی ویلیو جیٹ کی پرواز 592 کے کپتان کے آخری الفاظ تھے ’’ون فور زیرو‘‘ دراصل یہ وہ الفاظ تھے جو کنٹرول ٹاور سے ملنے والی ہدایات کے بعد پائلٹ نے آخری بار ادا کئے۔ اسے سمت کے متعلق ہدایات دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ وہ بائیں طرف مڑتے ہوئے 140 کی جانب جائے البتہ ائیرفرانس کی پرواز 447 جب 2009ء میں حادثے کا شکار ہوئی تو اس پائلٹ کے الفاظ تھے ’’لعنت ہو، ہم گرنے والے ہیں۔یہ نہیں ہوسکتا۔‘‘ آخری لمحات میں ایسے الفاظ کم ہی سننے کو ملتے ہیں۔