لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) سعودی آرمی چیف کی تبدیلی جنرل (ر)راحیل شریف کے مشورے سے عمل میں لائی گئی ہے۔ اسلامی عسکری اتحاد کے سربراہ اتحاد کی باقاعدہ فوج کو تشکیل دینے سے قبل مملکت میں ایک ایسا متحرک اور نوجوان آرمی چیف چاہتے تھے جس کے ساتھ ایک جانب تو اچھا ورکنگ ریلیشن قائم ہوسکے اور دوسری جانب وہ خود سعودی افواج کو فرنٹ سے لیڈ کرنے کے قابل ہو ۔ذرائع نے یہ بھی انکشاف کیا ہے
سعودی فرمانروا بھی سابق سعودی آرمی چیف لیفٹنٹ جنرل عید الاشلاوی کو آرام دینا چاہتے تھے کیونکہ یمن کے ساتھ جاری لڑائی میں بھی ان کی جانب سے کئے گئے غلط فیصلوں سے مملکت کے مفادات کو براہ راست نقصان پہنچا تھا جبکہ ملک میں بھی دہشت گردوں بالخصوص داعش کے خلاف بروقت اقدامات اٹھانے میں وہ ناکام رہے تھے جس کی وجہ سے بہت سا جانی نقصان بھی ہوا۔پاکستان کے ایک قومی اخبارکے ذرائع نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ شاہ سلمان سابق آرمی چیف سے ملک میں ایک اقلیتی فرقے کے خلاف ہونے والے آپریشنز اور ان کے نتائج پر کئی بار ان کی سرزنش بھی کرچکے تھے لیکن ان کی طرف سے کسی بھی قسم کی نئی سٹریٹجی کو سامنے نہیں لایا گیاجس کے بعد بالاخر یہ فیصلہ کیا گیاکہ ان کی جگہ فہد بن ترکی کو نیا آرمی چیف مقرر کیا گیا جس کی سفارش جنرل(ر) راحیل شریف نے کی تھی سعودی شاہ کی جانب سے اس اقدام سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ان معاملات میں اسلامی عسکری اتحادکے سربراہ کی رائے کو خاص اہمیت دیتے ہیں اور اسی لیے کچھ عرصہ قبل ان کے مشورے پر ایران کو بھی اتحاد میں شمولیت کی دعوت دی گئی تھی۔۔شاہ سلمان کی جانب سے اس اقدام سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ان معاملات میں سعودی عسکری اتحاد کے سربراہ کی رائے کو خاص اہمیت دیتے ہیں اور اسی لئے کچھ عرصہ قبل ان کے مشورے پر ایران کو بھی اتحاد میں شمولیت کی دعوت دی گئی تھی۔