اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) ملا فضل اﷲ کوئی بیٹھی ہوئی بطخ نہیں کہ جا کر دبوچ لیں، ملا فضل اﷲ کے خلاف پاکستان کیساتھ مل کر مشترکہ کارروائی پرآمادہ ہیں۔ پاکستان میں افغان سلامتی کے درپے عناصر گھوم پھر رہے ہیں جن کی حوالگی کا مطالبہ کرتے ہیں، افغان صدر کی پاکستانی سول و عسکری قیادت سے ملاقات اور دورہ پاکستان سے کچھ حاصل نہیں ہوا، پاک افغان
کشیدگی ختم کرانے کیلئے پس پردہ کوششیں جاری ہیں، پاکستان میں تعینات افغان سفیر ڈاکٹر عمر زاخیل وال۔پاکستان کے مؤقر قومی روزنامے کے مطابق پاکستان میں تعینات افغان سفیر ڈاکٹر عمر زاخیل وال نے کہا ہے کہ افغان صدر اشرف غنی نےاپنی سیاسی ساکھ داؤ پر لگاتے ہوئے پاکستان کا دورہ کیا۔ افغان سفیر نے بتایا کہ افغان صدر نے میری تجویز پر جی ایچ کیو کا دورہ کیا تھا لیکن اس دورے کے جواب میں انہیں کچھ حاصل نہیں ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی افغانستان کو برآمدات سالانہ پانچ ارب ڈالر تھیں جو تعلقات کی خرابی اور سرحدی کشیدگی کی وجہ سے اب ڈیڑھ ارب ڈالر رہ گئی ہیں۔پاکستان کی جگہ اب ایران نے افغان مارکیٹ پر قبضہ کر لیا ہے۔ عمر زاخیل وال کا کہنا تھا کہ پاکستان کی جانب سے افغانستان کو بھارت کے زیر اثر قرار دینا افغان عوام کی توہین ہے۔افغانستان ایک خودمختار ملک ہے جو اپنی خارجی ، داخلی اور معاشی پالیسیاں اپنے قومی مفاد میں خود ترتیب دیتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ الزام بالکل غلط ہے کہ افغانستان بھارت کو اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت دے گا۔افغان سفیر نے کہاہے کہ یہ تاثر بالکل غلط ہے کہ افغانستان پاکستان میں دہشتگردی کرنے والوں کو پناہ دیتا ہے اور ان کے خلاف کارروائی نہیں کر رہا۔ انہوںنے کہا کہ پاکستان کے مطالبہ پر قاری یٰسین کو ہلاک کیا، عمر نارے بھی
پاکستان کو مطلوب تھا جو ماراجا چکا ہے۔ آئی ایس کے لیڈر حافظ سعید کو گرفتار کر کے پاکستان کے حوالے کیا گیا ، ملا فضل اللہ کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ملا فضل اﷲ کوئی بیٹھی ہوئی بطخ نہیں کہ جا کر دبوچ لیں، پاکستان کے ساتھ مل کر ملا فضل اللہ کے خلاف کارروائی کر سکتے ہیں۔عمر زاخیل وال کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان بھی افغانستان میں دہشتگردی کے مرتکب افراد
کے خلاف کارروائی کرے ، یہ عناصر پاکستان میں آزادانہ گھوم پھر رہے ہیں۔پاکستان میں تعینات افغان سفیر نے2017 ء کو پاک افغان تعلقات کے حوالے سے اچھا سال قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ اچھی خبروں کا سال ہے۔ ہمارے تعلقات میں سرد مہری ختم ہونے والی ہے۔ تعلقات کو بہتر بنانے کیلئے پس پردہ کوششیں جاری ہیں۔