بیجنگ(آئی این پی )پاکستان کلی طور پر سنکیانگ میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں چین کے ساتھ کھڑا ہے ، دونوں ممالک مشترکہ سماجی ترقی کے مقصد کے حصول کیلئے آگے بڑھ رہے ہیں ، دونوں ممالک کے قانون نافذ کرنے والے ادارے مل کر دہشت گردی کو روکنے کیلئے مشترکہ دشمن کے خلاف کام کر رہے ہیں ، اس مقصد کیلئے انٹیلی جنس شیئرنگ کی طریقہ کار پر عمل کیا جائے گا ۔ ذرائع کے مطابق چینی خودمختار
علاقہ سنکیانگ ، پاکستان اور افغانستان سمیت 8ممالک کے حساس سرحدی علاقوں پر مشتمل ہے ، دوسرے ممالک سے دہشت گرد چین میں داخل ہو کر کاروائی کرتے ہیں اس لئے چین نے حال ہی میں دہشت گردی کے خلاف اپنی قانونی جنگ میں اضافہ کردیا ہے ۔ گزشتہ ہفتہ سنکیانگ کے علاقے میں قانون سازوں نے خطہ میں دہشت گردی کو روکنے اور مخالف انتہا پسندی کے سدباب کیلئے پہلی قانون سازی کی منظوری دی ہے جسے سنکیانگ پیپلزکانگریس نے گزشتہ ہفتہ منظور کیا ۔ اس قانون کے ذریعے مکمل چہرہ ڈھانپنے ،لمبی داڑھی جو کہ شدت پسندی کے فروغ کا سبب ہیں مکمل طور پر پابندی میں شامل کیا گیا ہے جس میں حلال غذائی تصورات کو فروغ دینا ، افراد کو دوسرے گروپ کی طرف مائل کرنا اور اسلامی غذائی قوانین کو دوسری غذائی اشیاء پر فوقیت دینا بھی شامل ہیں ۔ سرکاری خبررساں ایجنسی کے مطابق ان قوانین کا مکمل متن جمعرات کو جاری کیا گیا اور یکم اپریل سے ان قوانین کو لاگو کردیا گیا ہے ۔ سنکیانگ میں دہشت گردی کی جڑ علیحدگی پسند ہیں اور اس کی نظریاتی بنیاد انتہا پسندی ہے ، ان قوانین کو دوسال کیلئے صوبہ سنکیانگ پر لاگو کیا گیا ہے جسے سنکیانگ کی سخت ضرورت ہے ۔ کام کومعمول پر لانے کیلئے اس طرح کی سرگرمیوں پر قوانین کے مطابق نمٹا جائے گا ۔ اس کے علاوہ چین میں پہلی بار ضابطہ انتہا پسندی کی تاریخ واضح کی گئی ہے ،
دوسروں کی طرززندگی اور اس پر تبصرہ کرنا مداخلت تصور کیا جائے گا اور خلاف ورزی کرنیو الوں کو ضابطہ فوجداری قوانین کے تحت سزا دی جائے گی ۔ واضح رہے کہ چین کے صدر چی چن پھنگ نے بھی سنکیانگ کے گرد ایک لوہے کی دیوار تعمیر کرنے کا کہا تھا ۔ چن کوان گاؤ سنکیانگ کے پارٹی سربراہ نے خطے کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا کہ انتہا پسند لوگ عام لوگوں کو ظالم قاتلوں میں تبدیل کر دیتے ہیں ،یہ افراد منشیات کی طرح ہیں اور سرطان کی طرح پھیل سکتے ہیں ، شدت پسندی کا خاتمہ علاقائی استحکام قومی سلامتی کا معاملہ ہے ۔ اس سلسلے میں خطے میں کچھ کامیابی بھی حاصل ہوئی ہے ،اگرچہ صورتحال ابھی سنگین ہے ۔