ریاست مدھیہ پردیش ہی میں ایک گونڈ قبیلہ ہے، جہاں کسی بھی خاتون کو بیوہ نہیں رہنے دیا جاتا۔ اخبار تائمز آف انڈیا کے مطابق اس قبیلے کی روایت کے تحت مرنے والے شخص کی بیوی کی شادی اسکے خاندان میں دستیاب کسی بھی مرد سے کر دی جاتی ہے۔ اگر مرنے والے کا بھائی یا کزن وغیرہ دستیاب ہو تو اس سے شادی ہو جاتی ہے ورنہ خاندان کے کسی بچے سے شادی کر دی جاتی ہے۔ اگر خاندان میں کوئی بچہ بھی دستیاب نہ ہو تو اس صورت میں کسی دوسرے خاندان کی خاتون اس بیوہ کو چاندی کی چوڑیوں کا تحفہ دیتی ہے اور اسے اپنے گھر لے جاتی ہے۔ یوں ایک کا خاوند دوسری کا بھی خاوند بن جاتا ہے۔ گونڈ قبیلے کے گاؤں بیہانگہ سے تعلق رکھنے والے شخص پتی رام کا کہنا ہے کہ جب اسکے دادا کا انتقال ہوا تو وہ محض چھ برس کا تھا۔ اس کی بیوہ دادی سے شادی کیلئے کوئی بھی مرد موجود نہ تھا، لہٰذا اسکے دادا کی موت کے 9 دن بعد فیصلہ کیا گیا کہ بیوہ دادی چامری بائی کی شادی اسکے چھ سالہ پوتے سے ہو گی۔
ایسے رسم و رواج کا مذاہب سے تعلق نہیں ہے۔ روایت اور کلچر کی حیثیت رکھتے ہیں بعض روایات قابل رشک بھی ہوتی ہیں۔ پاکستان میں اجتماعی شادیوں کی روایت پختہ ہو رہی ہے۔ نوجوانوں میں بلڈ ڈونیشن کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ لوگ اپنے اعضا تک عطیہ کر رہے ہیں۔ اعضاء کی پیوند کاری اور بلڈ ٹرانسفیوژن جدید دور کے عطیات ہیں۔ آج لاکھوں لوگ بلڈ ٹرانسفیوژن اور اعضا کی تبدیلی کے باعث زندگی کی نعمتوں سے دوبارہ سرفراز ہو رہے ہیں۔ یہ سب جدید ٹیکنالوجی کے مرہون منت ہے جس کی اساس اور بنیاد تعلیم ہے جسے بامقصد علم قرار دیا جاتا ہے۔ علم کے ذریعے ہی قبیح اور کریہہ رسوم سے نجات حاصل کر سکتے ہیں۔ ہمارے ہاں کارو کاری، ونی، سوبارہ اور مذہبی کتابوں سے شادی جیسے رواج پائے جاتے ہیں۔ جہالت کے اس اندھیرے سے علم کی روشنی ہی سے نکالا جا سکتا ہے۔ یہاں فلسفیانہ بحث میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔ تعلیم و علم کیا ہے؟ ہمیں سر دست اس تعلیم کی ضرورت ہے جو سکولوں میں دی جاتی ہے ۔ تعلیم کی ابتدا یہی ہے جس نے ایٹم بم ایجاد کیا وہ بھی کبھی پہلے روز سکول گیا تھا۔ ہمارے عظیم ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے بھی تعلیم کا آغاز سکول سے کیا تھا۔
سکول ایک دونی دونی والا ہو یا ٹوئینکل ٹوئینکل لٹل سٹار والا، تعلیم کی ابتدا یہیں سے ہوتی ہے۔ اسکے بعد تعلیم کے اعلی مدارج شروع ہوتے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ تعلیم کچھ لوگوں کا ” کچھ نہیں بگاڑتی” وہ جہالت کے گھپ اندھیروں میں ہی زندگی گنوا اور گزار دیتے ہیں، انکی تعداد نہ ہونے کے برابر ہو سکتی ہے جبکہ تعلیم اکثر کی زندگی اور عاقبت کو سنوار دیتی ہے، انکی زندگیوں کو منور کر دیتی ہے اور معاشرے میں اعلی اقدار کی کار فرمائی کا سبب بھی بنتی ہے۔ آج تبدیلی کی باتیں ہو رہی ہیں۔ تبدیلی قوم کو باشعور بنائے بغیرنہیں آ سکتی ہے جس کا اہم ترین ذریعہ تعلیم ہے اور ہم تعلیم سے ابھی بہت دور ہیں۔ معاشرہ تعلیم یافتہ ہو گا تو تبدیلی کیلئے نعرے لگانے، دعوے کرنے اور ایک دوسرے کو مطعون کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔