نئی دہلی(این این آئی)بھارتی حکومت نے مبلغ ذاکر نائیک کی غیر سرکاری تنظیم (این جی او)اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن(آئی اذر ایف) کو غیر قانونی قرار دیکر اس پر پانچ سال کی پابندی عائد کردی جس کا اطلاق فوری طور پرکردیاگیا ٗیہ پابندی غیر قانونی سرگرمیوں کے تدارک کے ایکٹ (یو اے پی اے) کے تحت عائد کی گئی جس کی منظوری کابینہ کے اجلاس میں دی گئی۔بھارتی اخبار نے ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ حکومت ذاکر نائیک کی تنظیم آئی آر ایف پر پابندی لگانے کا ارادہ رکھتی ہے اور اس نے ذاکر نائیک کے خطبات کو قابل ’اعتراض اور تخریبی‘ قرار دیا تھا۔اخباکے مطابق حکومت آئی آر ایف پر پابندی کیلئے ذاکر نائیک اور دیگر ارکان کیخلاف ممبئی اور سندھو درگ مہاراشٹرا اور کیرالہ میں قائم مقدمات کیساتھ ساتھ پیس ٹی وی ے ساتھ ان کے ’مشکوک‘ روابط کو بھی بنیاد بنانے کا ارادہ رکھتی ہے جس پر الزام ہے کہ وہ ’ فرقہ وارانہ اور جہاد کی حمایت‘ میں مواد نشر کرتا ہے۔یو اے پی اے میں ’غیر قانونی تنظیم‘ اور ’دہشت گرد تنظیم‘ کا فرق واضح طور پر درج ہے، قانون کے مطابق ’غیر قانونی تنظیم‘ وہ تنظیم ہوگی جس کا بنیادی مقصد کسی ایسی سرگرمی کو فروغ دینا ہوگا جو تعزیرات ہند کے سیکشن 153 اے یا 153 بی کے تحت قابل تعذیر ہوگی۔تعزیرات ہند کی مذکورہ شقیں معاشرتی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کیلئے خطرہ تصور کی جانے والی سرگرمیوں سے نمٹنے کے لیے ہیں۔بھارتی وزارت داخلہ کے ذرائع کے مطابق آئی آر ایف پر پابندی عائد کرنے کے لیے ٹھوس شواہد موجود تھے اور مہاراشٹرا کی حکومت اور سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسیوں نے اس حوالے سے شواہد پیش کیے تھے۔ذاکر نائیک اور آئی آر ایف کے دیگر ارکان کے خلاف تعذیرات ہند کی دفعہ 153 اے اور 153 بی کے تحت ممبئی کے دو، کیرالہ کے ایک اور سندھو درگ کے دو پولیس اسٹیشنز میں مقدمات درج ہیں۔بھارت کی انٹیلی جنس بیورو نے ذاکر نائیک کے کئی خطبوں کو جمع کیا جن میں وہ ان کا وہ خطاب بھی شامل ہے جس میں انہوں نے اسامہ بن لادن کی تعریف کی اور دعویٰ کیا تھا کہ بھارت کے 80 فیصد شہری ہندو نہیں ہوتے اور اگر مسلمان چاہتے تو انہیں تلوار کے زور پر مسلمان کرسکتے تھے۔ذاکر نائیک کے ان بیانات کو بھی اکھٹا کیا گیا جن میں انہوں نے خود کش دھماکوں کو جائز قرار دیا، یہ دعویٰ کیا کہ گولڈن ٹیمپل مکہ کی طرح مقدس نہیں ہوسکتا اور ہندو دیوتاؤں کے بارے میں قابل اعتراض باتیں کیں۔