برلن(این این آئی)وفاقی جرمن پارلیمنٹ نے ملک میں آنے والے تارکین وطن کے سماجی انضمام اور پناہ کے متلاشی افراد کو روزگار کی فراہمی سے متعلق نئے قوانین کی منظوری دے دی ۔میڈیارپورٹس کے مطابق جرمن پارلیمنٹ کے ایوان زیریں یا بنڈس ٹاگ کے منظور کردہ مہاجرین کے سماجی انضمام سے متعلق نئے قوانین کے مطابق جرمن معاشرے کا حصہ بننے کی کوشش نہ کرنے والے مہاجرین اور تارکین وطن کو ریاست کی جانب سے فراہم کردہ سہولیات روک دی جائیں گی۔وفاقی چانسلر میرکل نے چار ماہ قبل ایسے قوانین بنانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ نئے سماجی قوانین تاریخی اہمیت کے حامل ہوں گے۔ میرکل کا کہنا تھا کہ جرمنی کو مہاجرین کی جانب سے دو طرح کے چیلنج درپیش ہیں، جن میں سے پہلا ان کی جرمنی آمد کو محدود کرنا اور دوسرا ملک میں رہائش پذیر مہاجرین کو مقامی معاشرے میں ضم کرنا ہے۔جرمنی میں موجود مہاجرین کے بارے میں ان نئے قوانین کو ’قانون برائے سماجی انضمام‘ کا نام دیا گیا ہے اور اس میں مہاجرین کے لیے سماجی انضمام کے کورسز سے لے کر ان کی تعلیم، فنی تربیت، ملازمت اور ان کے جرمنی میں رہائش کے حقوق تک جیسے سبھی پہلوؤں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ان قوانین پر عمل درآمد نہ کرنے والے مہاجرین کو اس عمل کے نتائج بھی بھگتنا ہوں گے۔ تعاون نہ کرنے والے مہاجرین کو نہ صرف سماجی سہولیات سے محروم کر دیا جائے گا بلکہ انہیں جاری کردہ عارضی رہائش نامے بھی منسوخ کیے جا سکیں گے۔انسانی حقوق کی تنظیموں نے برلن حکومت کے ان نئے قوانین پر شدید تنقید کی ہے۔ علاوہ ازیں جرمنی میں سماجی انضمام کی نگران خاتون کمشنر آئیدین اْوزوس نے بھی ان قوانین کو سخت الفاظ میں تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ یہ قوانین انہی لوگوں کو معاشرتی طور پر ’الگ تھلگ‘ کر دینے کا سبب بن جائیں گے، جنہیں معاشرے میں ضم کرنے کی کوشش کے تحت یہ قانون سازی کی گئی ہے۔اْوزوس کا مزید کہنا تھا کہ اگرچہ یہ قوانین جرمنی آنے والے مہاجرین کا سماجی انضمام یقینی بنانے کے لیے ناگزیر ہیں تاہم ان میں ایک اہم بات کو نظرانداز کرتے ہوئے یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ ریاست کی فراہم کردہ ’سہولیات کا حق دار‘ کون ہو گا۔