اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) برطانوی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق امریکہ کا کہنا ہے کہ افغان طالبان کے سابق رہنما ملا اختر منصور کی ہلاکت سے طالبان کو یہ اشارہ دیا گیا ہے کہ ا ±ن کے پاس مصالحت اور امن کے علاوہ کوئی اور راستہ موجود نہیں ہے۔امریکی دفتر خارجہ ترجمان مارک ٹونر نے کہا کہ امریکہ افغانستان میں امن کے قیام کے لیے مصالحتی عمل کی حمایت کرتا ہے لیکن طالبان کے رہنما ملا اختر منصور کو نشانہ بنانے کی وجہ یہ ہے کہ وہ نہ صرف افغانستان میں امریکی اور افغان افواج پر حملے کر رہے تھے بلکہ افغان مصالحتی عمل جاری رکھنے میں زیادہ فعال کردار ادا نہیں کر رہے تھے۔دوسری جانب افغان حکومت نے طالبان رہنما کو پیغام دے دیا ہے کہ وہ ہماری بات مان لیں یا سنگین نتائج کیلئے تیار ہو جائیں۔گزشتہ دنوں افغان طالبان نے ہیبت اللہ اخونزاد کو نیا رہنما مقرر کیا تھا۔امریکہ نے افغان طالبان کے نئے رہنما ہیبت اللہ اخونزادہ کو قیام امن کے مذاکرات کی میز پر آنے کی پیشکش کرتے ہوئے کہا کہ وہ مسائل کے حل کے لیے مل کر کام کریں۔مارک ٹونر نے کہا کہ ’ملا منصور افغان فورسز اور امریکی افواج پر مہلک حملے کر رہے تھے اور وہ امریکہ کے لیے واضح طور پر ایک خطرہ تھے اس لیے انھیں نشانہ بنایا گیا لیکن ہم پر امید ہیں کہ طالبان کو اس سے یہ اشارہ ملا ہے کہ ا ±ن کے پاس مصالحت اور امن کی واحد آپشن موجود ہے۔دوسری جانب پاکستان کا کہنا ہے کہ امریکی ڈرون حملے میں ملا اختر منصور کی ہلاکت سے افغانستان میں مصالحتی عمل کو نقصان پہنچا ہے اور اب افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات دوبارہ شروع ہونے کی یقین دہانی نہیں کروائی جا سکتی ہے۔