واشنگٹن(نیو زڈیسک)امریکی عدلیہ کے حکم پرعمل درآمد یقینی بناتے ہوئے امریکا میں منجمد کیے گئے22 ارب ڈالر کے اثاثے 11 ستمبر 2001ء کو ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کے نتیجے میں متاثرہ خاندانوں کو ہرجانے کے طور پر ادا کیے جانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ عدالت نے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ کو نائن الیون دہشت گردی کے دوسرے ملزم قراردیتے ہوئے تہران کے خلاف کاررروائی کا بھی مطالبہ کیا ہے۔پین عرب روزنامہ ”الشرق الاوسط“ نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ امریکا میں ایران کے منجمد کیے گئے 22 ارب ڈالر اور نیویارک میں مین ہٹن ٹاور میں ایران کے ملکیتی فلیٹس جن کی مالیت 800 ملین ڈالر ہے کی رقم نائن الیون کے متاثرین کو دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یہ فیصلہ امریکا کی ایک عدالت کی جانب سے جاری کردہ اس فیصلے پرعمل درآمد کرتے ہوئے کیا گیا ہے جس میں عدالت نے ایران کو نائن الیون کو ہونے والی دہشت گردی کا سہولت کار قرار دے کر10 ارب ڈالر ھرجانہ ادا کرنے کا حکم دیا تھا۔اخباری رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ نیویارک کی عدالت نے نائن الیون کے حملوں میں دہشت گردوں کو لاجسٹک اور مالی معاونت کرنے پر چھ ایرانی شخصیات کو براہ راست مورد الزام ٹھہرایا تھا۔ عدالتی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای، سابق انٹیلی جنس چیف علی فلاحیان، پاسداران انقلاب کے ڈپٹی چیف میجر جنرل باقر ذوالقدر اور لبنانی شیعہ ملیشیا حزب اللہ کے مقتول کمانڈر عماد مغنیہ نے نائن الیون حملوں کے لیے دہشت گردوں کو مالی اور لاجسٹک سپورٹ مہیا کی تھی۔نیویارک کی فاضل عدالت کے جج جیمز کرائنڈلر نے اپنے تفصیلی فیصلے مطالبہ کیا تھا کہ نائن الیون کے متاثرین کے لیے ایران سے 3 ارب ڈالر کی رقم وصول کر کے بہ طور ہرجانہ ادا کی جائے۔ اس سے قبل امریکا کے بنکوں میں موجود 100 ملین ڈالر کے فنڈز نکالنے اور ایران سے مزید رقم طلب کرنے کا بھی مطالبہ کیا گیا تھا۔سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کی حکومت کے ایک سینیرعہدیدار کا کہنا ہے کہ امریکا میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ایران کے ملوث ہونے کی شکایات اتنی زیادہ ہیں کہ اگر ان میں سے ہر شکایت پر ہرجانہ ادا کیا جائے تو یہ رقم 49 ارب ڈالر بنتی ہے۔