ماسکو(نیوز ڈیسک)شام سے روسی طیاروں کی دوسری کھیپ بھی وطن واپس روانہ ہوگئی جبکہ شامی حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ انخلاء کے بعد روسی فوج کی واپسی ممکن ہے،،غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق روسی وزارت دفاع کی جانب سے بدھ کے روز جاری ہونے والے ایک بیان میں اعلان کیا گیا ہے کہ روسی جنگی طیاروں کا ایک اور مجموعہ وطن واپسی کے لیے شام میں حمیمیم کے فضائی اڈے سے روانہ ہوگیا۔ وزارت کے مطابق مذکورہ طیاروں میں کارگو طیارہ Ilyushin Il۔76 اور سوخوئی۔25 لڑاکا طیارے شامل ہیں۔اس سے قبل طیاروں کی پہلی کھیپ منگل کے روز روس واپسی کے لیے روانہ ہوئی تھی۔ یہ روانگی روسی صدر ولادیمر پیوٹن کی جانب سے شام سے جزوی انخلاء کے اعلان کے 24 گھنٹوں کے بعد عمل میں آئی۔ادھر روس کے نائب وزیر دفاع نکولائی بانکوف نے باور کرایا کہ روسی افواج کے جزوی انخلاء کے باوجود روسی فضائی طیارے شام میں داعش اور دیگر دہشت گرد جماعتوں سے مربوط اہداف پر بمباری کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس حوالے سے یقینی مثبت نتائج حاصل ہوئے جس کے بعد اس پھیلے ہوئے تنازع کے خاتمے کا حقیقی موقع میسر آیا ہے،شام میں حمیمیم کے روسی فضائی اڈے پر ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بانکوف کا کہنا تھا کہ “مشن پورا ہوگیا تاہم دہشت گردی پر قابو پانے کے حوالے سے بات کرنا ابھی قبل از وقت ہوگا روسی فضائیہ پر دہشت گرد تنصیبات کو کاری ضربوں کا نشانہ بنانے کی کارروائیاں جاری رکھنے کی ذمہ داری ہے۔دوسری جانب کرملن نے اعلان کیا ہے کہ روسی فوج شام میں اپنا “جدید ترین” فضائی دفاع کا نظام باقی رکھے گا۔ تاہم سرکاری طور پر اس امر کے ایس۔400 میزائل بیٹریوں سے متعلق ہونے کی تصدیق نہیں کی گئی۔دریں اثناء شامی صدر بشار الاسد کی ایک اہم مشیرنے کہاہے کہ روس کی افواج شام سے انخلاء کے بعد واپس بھی آسکتی ہیں۔ایک انٹرویومیں انہوں نے کہا کہ اب امریکا کو چاہیے کہ ترکی اور سعودی عرب پر دباؤ ڈالے کہ وہ اپوزیشن کے مسلح ارکان کی امداد کا سلسلہ روک دیں۔بثینہ شعبان کا کہنا تھا کہ اگرچہ ہمارے دوست ملک روس نے اپنی افواج کا کچھ حصہ واپس بلا لیا ہے۔ تاہم اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ان کی واپسی ممکن نہیں۔روس نے گزشتہ سال ستمبر سے دمشق حکومت کی مدد کا آغاز کیا تھا اور اپنے چھٹے برس میں داخل ہوجانے والے تنازع میں لڑائی کے میدان میں بھرپور انداز سے شرکت کی۔گزشتہ ماہ روس کا کہنا تھا کہ بشار الاسد اس کی سفارتی کوششوں کے ساتھ یکساں سطح پر نہیں چل رہے جس سے ان قیاس آرائیوں نے جنم لیا تھا کہ پیوٹن شامی صدر پر جنیوا میں امن بات چیت کے حوالے سے مزید لچک دار موقف کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں جب کہ بشار الاسد کی حکومت صدارت کے موضوع کو زیربحث لانے یا اقتدار کی منتقلی پر مذاکرات کو خارج از امکان قرار دے چکی ہے۔تاہم بثینہ شعبان نے پیوٹن کی جانب سے دمشق حکومت پر کسی بھی دباؤ کی تردید کرتے ہوئے باور کرایا کہ شامی افواج خودمختار ہیں اور اس کی فوجی صلاحیتیں قابل اعتماد ہیں۔انہوں نے اس امر کی تصدیق کی کہ روس نے مذکورہ قدم دمشق حکومت کے ساتھ مشاورت سے اٹھایا ہے لہذا روسی اقدام کو دمشق حکومت پر دباؤ سے جوڑنا قطعا بے بنیاد ہے۔