ہریانہ(نیوز ڈیسک)بھارتی ریاست ہریانہ میں جاٹ برادری احتجاج خون خرابہ میں تبدیل ہو گیا ،مظاہرین پرسیکورٹی فورسز کی فائرنگ سے ہونیوالی ہلاکتوں کی تعداد 9 ہو گئی جبکہ متعدد زخمی ہوگئے، متاثرہ علاقوں میں کرفیو نافذ ہے ، شرپسندوں کو دیکھتے ہی گولی مار دینے کا حکم تاحال نافذ ہے،مظاہرین نے ریلوے اسٹیشنز، موٹر سائیکلوں، بسوں اور دکانوں کو آگ لگا دی، مشتعل مظاہرین نے ہریانہ کے ایک وزیر کے گھر کو بھی جلا ڈالا اور بی جے پی کے وزیر کے گھر پر پتھراؤ کیا، مظاہرین نے سڑکیں اور ریلوے لائنیں بلاک کررکھی ہیں، تمام تعلیمی ادارے 22 فروری تک بند کردیے گئے ہیں،متاثرہ علاقوں میں ایس ایم ایس اور انٹرنیٹ سروسز بھی معطل کردی گئی ہیں، جاٹ برادری تعلیمی اداروں اورملازمتوں میں اپنا کوٹہ مقرر کرنے کا مطالبہ کررہی ہے۔تفصیلات کے مطابق بھارتی ریاست ہریانہ میں جاٹ برادری کی ریزرویشن تحریک سے شروع ہونے والے تشدد میں ہلاکتوں کی تعداد نو ہو گئی ہے جبکہ آٹھ شہروں میں کرفیو نافذ کر دیا گیا
ہے۔ہریانہ کے ریاستی دارالحکومت چنڈی گڑھ میں موجود مقامی صحافی سنجے شرما نے ایڈیشنل چیف سیکریٹری پی کے داس کے حوالے سے بتایا ہے کہ جھجّر میں فوج اور مظاہرین کے درمیان ہونے والے تصادم میں سات افراد مارے گئے ہیں جبکہ کیتھل ضلعے میں دو گروہوں کے درمیان ہونے والے جھگڑے میں ایک شخص ہلاک ہو گیا ہے۔ غیر ملکی خبررساں ادارے کا اپنی رپورٹ میں کہنا ہے کہ احتجاج کرنے والے جاٹوں نیساری ریاست کی ناکہ بندی کر رکھی ہے اور ریاست کو دوسرے ملک سے ملانے والی شاہراہوں اور ریلوے لائنوں کو بند کر دیا گیا ہے۔ایک ہفتے سے جاری احتجاج کے دوران تشدد کے واقعات میں گذشتہ دو روز میں کم از کم نو افراد ہلاک اور 60
سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں۔تشدد سے متاثرہ علاقوں میں سنیچر کو کرفیو کے باوجود مظاہرین سڑکوں پر آ گئے جبکہ روہتک اور جند میں مظاہرین نے پولیس کی گاڑیوں، سرکاری، نجی املاک اور بسوں کو نذرِآتش کر دیا۔بھارت کے سرکاری خبر رساں ادارے نے حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ جھجھر میں جاٹ برادری کے مظاہروں کے دوران فائرنگ اور املاک کو آگ لگانے کی کوشش کو روکنے کے لیے مسلح افواج کی فائرنگ سے پانچ افراد ہلاک ہو گئے۔جمعے کو روہتک میں نسلی فسادات کے بعد شہر میں کرفیو نافذ کر دیا گیا تھا جبکہ ہفتہ کو کرفیو آٹھ شہروں تک بڑھا دیا گیا تھا جو ابھی تک جاری ہے ۔روہتک میں فوجیوں کو ہیلی کاپٹروں کے ذریعے اتارا گیا ہے جبکہ متاثرہ علاقوں میں فوج کا فلیگ مارچ جاری ہے۔ریاست میں پولیس کے سربراہ وائی پی سنگھل کا کہنا ہے کہ امن و قانون قائم رکھنا پولیس کی پہلی ترجیح ہے۔جمعرات کو جاٹ برادری کی جانب سے ملازمت اور تعلیم کے شعبوں میں ریزرویشن کے مطالبات کے لیے ریلی نکالی تھی جس کے بعد صورت حال پر تشدد ہوگئی تھی۔جاٹ برادری سرکاری ملازمتوں میں کوٹے کا مطالبہ کر رہی ہے جبکہ دیگر نسلی گروہ اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ولیس نے موبائل انٹرنیٹ سروسز بھی معطل کر دی ہیں اور چار سے زائد افراد کے اکٹھا ہونے پر پابندی عائد ہے۔ریاست کے پولیس سربراہ نے لوگوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اس تحریک میں حصہ لینے کے لیے نہ بھیجیں۔ انھوں نے کھاپ پنچایتوں
سے بھی فی الحال میٹنگ سے باز رہنے کی اپیل کی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ تشدد میں ملوث افراد کی شناخت کے بعد ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ادھر مرکزی وزیر سنجیو کمار بالیان نے لوگوں سے امن برقرار رکھنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ ریاستی حکومت اس معاملے کو حل کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔ریاست کے وزیراعلیٰ منوہر لال کٹر نے جمعرات کی شب حالات کا جائزہ لینے کے لیے ہنگامی اجلاس بلایا تھا۔مرکزی حکومت نے بھی ریاستی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ جاٹ برادری سے مذاکرات شروع کرے۔فی الحال جاٹ برادری کو اعلیٰ ذات کی حیثیت حاصل ہے تاہم وہ دیگر نچلی ذاتوں کے لیے متعین کردہ حیثیت کا مطالبہ کر رہے ہیں۔جاٹ برادری کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ نچلی ذاتوں کے لیے مختص کوٹے کی وجہ سے ان کی برادری کو تعلیمی اداروں اور سرکاری ملازمتوں کے حصول میں ناانصافی ہوتی ہے۔#/s#
بھارت: ہریانہ میں جاٹ برادری کا احتجاج خون خرابہ میں تبدیل، ہلاکتوں کی تعداد 9 ہوگئی
21
فروری 2016
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں