جمعرات‬‮ ، 31 جولائی‬‮ 2025 

تارکین وطن کو آمد کے تین مہینے بعد ہی کاکام کی اجازت

datetime 18  جنوری‬‮  2016
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

دیگر یورپی ممالک کے مقابلے میں تارکین وطن کو جرمنی آنے کے تین مہینے بعد ہی کام کرنے کی اجازت دے گئی تھی۔ بعض لوگوں کا خیال میں کام کرنے کی جلد اجازت نقصان دہ ہے تاہم جرمن محکمہ روزگار کے سربراہ اس سے متفق نہیں۔جرمن محکمہ روزگار اور وفاقی ادارہ برائے تارکین وطن اور مہاجرت کے سربراہ فرانک ڑ±رگن وائزے کا کہنا ہے کہ پناہ گزینوں کو جرمنی کی روزگار کی منڈی تک جلد رسائی فراہم کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔جرمن خبررساں ادارے ڈی پی سے کی گئی ایک گفتگو میں وائزے نے صرف تین ماہ بعد ہی تارکین وطن کو کام کرنے کی اجازت دینے کے قانون کی حمایت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جن لوگوں کو جرمنی میں پناہ ملنے کے امکانات زیادہ ہیں، انہیں جرمن معاشرے میں ضم کرنے کا سب سے بہترین راستہ یہی ہے کہ انہیں کام کرنے کی اجازت دی جائے۔پناہ گزینوں کے لیے یورپی یونین میں شامل دیگر ممالک کی نسبت جرمنی میں روزگار تلاش کرنے میں کم رکاوٹیں حائل ہیں۔ کچھ ماہرین کی رائے میں یہ نرم قانون تارکین وطن کو جرمنی کی جانب راغب کر رہا ہے۔ تاہم وائزے اس رائے سے اختلاف کرتے ہیں۔فرانک ڑ±رگن وائزے جرمن محکمہ روزگار کے علاوہ وفاقی ادارہ برائے تارکین وطن اور مہاجرت کے سربراہ بھی ہیںمحکمہ روزگار کے سربراہ کے مطابق ملازمت حاصل کرنے کے ان قوانین میں کوئی منفی بات نہیں ہے اور انہیں دوبارہ سخت نہیں بنانا چاہیے۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا معاشی ضروریات کے لیے ترک وطن کا کوئی جواز نہیں ہے کیوں کہ روزگار کی تلاش میں جرمنی آنے کے خواہش مند قانونی طور پر باقاعدہ ’ورک ویزا‘ حاصل کر سکتے ہیں۔دو اہم وفاقی اداروں کے سربراہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ جو لوگ ’اپنی جانیں بچا کر جرمنی پہنچے ہیں، ہمیں ان کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے تاکہ وہ جرمنی میں رہنے کے قابل ہو سکیں‘۔ ان کی رائے میں روزگار حاصل کرنے کے قوانین کو سخت بنا کر مہاجرین کو ڈرانا ’غلط طریقہ کار‘ ہو گا۔گزشتہ برس کے اواخر میں جرمن حکومت نے پناہ گزینوں کے لیے روزگار حاصل کرنے کے قوانین میں نرمی کر دی تھی۔ نئے ضابطوں کے مطابق تارکین وطن جرمنی میں باقاعدہ رجسٹریشن کے تین ماہ بعد سے کام کرنے کی اجازت دے دی جاتی ہے۔فرانک ڑ±رگن وائزے کے خیال میں جرمن روزگار کی منڈی اور مختلف علاقوں کا جائزہ لینے کے بعد فیصلہ کیا جانا چاہیے کہ کن کن جگہوں اور کاموں کے لیے افرادی قوت درکار ہے۔محکمہ روزگار نے یہ بھی کہا کہ اگلے برس سے جرمنی میں بے روزگاری کے اعداد و شمار میں تارکین وطن کا الگ سے اندراج ہونا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ یوں، ”بے روزگاری کی شرح کے اعداد و شمار تو ایک ہی ہوں گے، لیکن ہمیں یہ معلوم ہو پائے گا کہ کتنے بے روزگار مہاجرین ہیں اور کتنے مقامی۔“

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



ماں کی محبت کے 4800 سال


آج سے پانچ ہزار سال قبل تائی چنگ کی جگہ کوئی نامعلوم…

سچا اور کھرا انقلابی لیڈر

باپ کی تنخواہ صرف سولہ سو روپے تھے‘ اتنی قلیل…

کرایہ

میں نے پانی دیا اور انہوں نے پیار سے پودے پر ہاتھ…

وہ دن دور نہیں

پہلا پیشہ گھڑیاں تھا‘ وہ ہول سیلر سے سستی گھڑیاں…

نیند کا ثواب

’’میرا خیال ہے آپ زیادہ بھوکے ہیں‘‘ اس نے مسکراتے…

حقیقتیں(دوسرا حصہ)

کامیابی آپ کو نہ ماننے والے لوگ آپ کی کامیابی…

کاش کوئی بتا دے

مارس چاکلیٹ بنانے والی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی…

کان پکڑ لیں

ڈاکٹر عبدالقدیر سے میری آخری ملاقات فلائیٹ میں…

ساڑھے چار سیکنڈ

نیاز احمد کی عمر صرف 36 برس تھی‘ اردو کے استاد…

وائے می ناٹ(پارٹ ٹو)

دنیا میں اوسط عمر میں اضافہ ہو چکا ہے‘ ہمیں اب…

وائے می ناٹ

میرا پہلا تاثر حیرت تھی بلکہ رکیے میں صدمے میں…