تہران(نیوز ڈیسک)ایرانی حکام نے شام میں صدر بشارالاسد کے دفاع کے لیے اتاری گئی فوج کی واپسی کے حوالے سے سامنے آنے والی خبروں کی سختی سے تردید کی ہے اور کہا ہے کہ تہران کا دمشق سے اپنی فوجیں واپس بلانے کا قطعاً کوئی ارادہ نہیں ہے اور نہ ہی مستقبل میں شام میں ایرانی پاسداران انقلاب کی تعداد کم کی جائے گی۔ایران کی مسلح افواج کے سربراہ کے معاون برائے پاسیج ملیشیا بریگیڈیئر مسعود جزائری نے کہا ہے کہ دمشق سے ایرانی فوج کی واپسی کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں ہے اور نہ ہی ایران شام میں اپنی عسکری سرگرمیوں میں کسی قسم کی کمی کا ارادہ رکھتا ہے۔ ایرانی خبر رساں ایجنسی نے بریگیڈیئر جزائری کا ایک بیان نقل کیا ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ دمشق میں ایرانی فوجیوں کی تعداد کم کرنے کی افواہیں دشمن کی طرف سے پھیلائی گئی ہیں، ان میں کوئی صداقت نہیں ہے۔ اس نوعیت کی افواہیں دشمن کی جانب سے ایران کے خلاف نفسیاتی جنگ کا حصہ ہیں جن پر کسی کو یقین نہیں کرنا چاہیے۔بریگیڈیئر مسعود جزائری نے کہا کہ شام میں ایرانی فوج محض مشاورتی مشن پر آئی ہے جس کا مقصد شام کی سرکاری فوج کی عسکری صلاحیتوں میں کو بہتر بنانے میں مدد کرنا ہے۔ تاہم اس کے باوجود ایران فوج اور نجی ملیشیا کے 600 اہلکار شام کی جنگ میں داد شجاعت دیتے ہوئے مارے جا چکے ہیں۔ مرنے والے فوجیوں میں 65 سینیر افسران بھی موجود ہیں۔درایں اثناء4 پاسداران انقلاب کے ڈپٹی چیف بریگیڈیئر حسین سلامی کا کہنا ہے کہ شام کے بارے میں تہران کی پالیسی میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ ایران شام میں متعین اپنی فوج کی تعداد میں کمی بھی نہیں کرے گا۔ خبرایجنسی کیمطابق بریگیڈٰیئر حسین سلامی کا ایک بیان مغربی اخبارات میں شائع ہوا ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ شام میں ایرانی فوج کی کمی یا اضافہ تہران کی دمشق بارے مروجہ پالیسی کا حصہ ہے۔ ضرورت کے تحت شام میں ایرانی فوج کی تعداد میں کمی بیشی جاری رہتی ہے۔ فی الحال ایران شام میں اپنی فوج کی تعداد میں کمی نہیں کرے گا۔قبل ازیں پاسداران انقلاب کے سربراہ جنرل محمد علی جعفری نے دسمبر کے اوائل میں ایک آرڈر جاری کیا تھا جس میں بیرون ملک سرگرم پاسداران انقلاب کی ایلیٹ فورس’’القدس‘‘ کی قیادت غلام حسین غیب برور کو سونپی تھی۔ وہ اس سے قبل پاسداران انقلاب کے امام حسین بریگیڈ کو کمان کر رہے تھے اور ساتھ ہی ساتھ پاسداران انقلاب کی بیرون ملک آپریشنل فورسز کی بھی معاونت کرتے رہے ہیں۔