پیر‬‮ ، 18 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

بنگلہ دیش میں موت کارقص ،عالمی ادارے نے انتباہ جاری کردیا

datetime 18  دسمبر‬‮  2015
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

ڈھاکہ(نیوزڈیسک)بنگلہ دیش میں ملبوسات کی صنعت سے متعلق ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس شعبے میں کام کرنے والے 30 لاکھ افراد زیادتی اور خطرناک حالات کا سامنا کر رہے ہیں۔میڈیارپورٹس کے مطابق بنگلہ دیش میں صرف ایک چوتھائی گارمنٹس تیار کرنے والی فیکٹریوں کو نئے سیفٹی پروگرام کے تحت تحفظ حاصل ہے۔ 2013 میں رانا پلازہ کے منہدم ہونے کے واقعے کے بعد بنگلہ دیش میں ملبوسات تیار کرنے والی فیکٹریوں کو اپنے ملازمین کے لیے حفاظتی اقدامات اٹھانے کے لیے کہا جاتا رہا ہے۔ بنگلہ دیش میں گارمنٹس کی برآمدات، دنیا کی دوسری بڑی انڈسٹری ہے اور یہاں حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ ملبوسات بنانے والی 81 فیصد فیکٹریاں جو بین الاقوامی اداروں کو اپنا مال بیچتی ہیں، وہ محفوظ ہیں۔نیو یارک یونیورسٹی کے سینٹر برائے تجارت اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے بتایاکہ 7000 میں سے تقریبا نصف فیکٹریاں بین الاقوامی ریٹیلرز کو براہ راست کپڑا برآمد کرتی ہیں جس کی وجہ سے ان کی نگرانی کی جاتی ہے لیکن ان میں سے بھی صرف نصف فیکٹریوں کو انڈسٹری کے حفاظتی پروگرام کے ذریعے تحفظ حاصل ہے۔رانا پلازہ گرنے کے ہولناک حادثے کے بعد یورپی اور امریکی ریٹیلرز نے بنگلہ دیش میں آگ سے بچاؤ، عمارات کی پائیداری اور ملازمین کے تحفظ کے لیے ایک اتحاد قائم کیا، جس کے ذریعے 1900 فیکٹریوں کا باقاعدگی سے معائنہ کیا جاتا ہے۔تحفظ فراہم کرنے والے اتحاد اور انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے تحت کرائے جانے والے 3425 معائنوں میں صرف 8 فیکٹریاں پاس ہوئیں۔ رپورٹ میں لکھا گیا ہے، ’’رانا پلازہ واقعے کے بعد گارمنٹس سیکٹرکی اصلاح کا عمل سست روی کا شکار ہے جس کی ایک وجہ مہنگی تعمیراتی تبدیلیاں ہیں جو معائنے کو پاس کرنے کے لیے ضروری ہیں۔ رانا پلازہ سانحے کے بعد کئی ممالک کی حکومتوں، بین الاقوامی ریٹیلرز اور ترقیاتی اداروں نے بنگلہ دیش میں ملبوسات کی انڈسٹری کے لیے 280 ملین ڈالر فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن رپورٹ کے مطابق یہ واضح نہیں ہے کہ یہ پیسہ کہاں خرچ کیا جا رہا ہے اور یقینی طور پر یہ پیسہ ان ہزاروں فیکٹریوں میں حفاطتی اقدامات پر عملد درآمد کے لیے خرچ نہیں کیا جا رہا جو بالواسطہ طور پر اپنا مال برآمد کرتی ہیں۔رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یورپی اور امریکی ریٹیلرز کی جانب سے بنائے گئے اتحادی پروگرام کے تحت 100 ملین ڈالر پانچ برس کے لیے ان فیکٹریوں کے لیے مختص کیے گئے تھے جو بین الاقوامی ریٹیلرز کو براہ راست اپنا مال درآمد کرتی ہیں ایسی فیکٹریاں جو اپنے سرمایے سے بھی حفاظتی اقدامات اٹھا سکتی ہیں۔رپورٹ میں تجویز کیا گیا ہے کہ ایسی فیکٹریوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے جو شفافیت اپناتی ہیں، فیکٹریوں کے معائنوں کو بھی بڑھانا چاہیے اور حفاظتی اقدامات اٹھانے میں غفلت برتنے والی فیکٹریوں کے خلاف کارروائی کی جانا چاہیے۔



کالم



بس وکٹ نہیں چھوڑنی


ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…

کنفیوژن

وراثت میں اسے پانچ لاکھ 18 ہزار چارسو طلائی سکے…

ملک کا واحد سیاست دان

میاں نواز شریف 2018ء کے الیکشن کے بعد خاموش ہو کر…