لاہور(نیوزڈیسک)منی لانڈرنگ کی تحقیقات کے حوالے سے متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین کو مشکل وقت کا سامنا ہے۔ وہ9جولائی 2015ء تک ضمانت پر ہیں۔ 15 روز کے اندر وہ لندن پولیس کے سامنے ایک ایسے وقت پیش ہوں گے جب برطانوی کرائون پراسیکیوشن سروس بظاہر منی لانڈرنگ کو پکڑ اور گرفت میں لانے کیلئے کوشاں ہے۔ منی لانڈرنگ کے خلاف جولائی 2013ء میں شروع تحقیقات کے دوران انہیں لندن پولیس نے3جون 2014ء کو گرفتار کیا۔ جولائی 2014ء کو 3 دسمبر 2014ء کو ان کی ضمانت میں دوبار توسیع ہو چکی ہے۔ اب یہ دیکھنا ہے کہ آیا ان کی 9 جولائی کو تیسری بار ضمانت میں توسیع ہوتی ہے یا نہیں اور یہ کہ اب قانون اپنا راستہ اختیار کرے گا۔ کرائون پراسیکیوشن سروس کے قانونی مشورے پر برطانوی پولیس کی جانب سے حالیہ بڑے منی لانڈرنگ مقدمات کا جائزہ لیا جائے تو اس ایجنسی کے موڈ اور اپنے کام سے لگن کا اندازہ ہو سکتا ہے جس کا بجٹ 59 کروڑ 20 لاکھ پائونڈ اور نفری 6840 ہے۔ اکتوبر 2014ء میں برطانیہ کی 19 کمپنیوں کو یورپ کی سب سے بڑی منی لانڈرنگ تحقیقات کا سامنا کرنا پڑا۔ جس پر روس سے 20 ارب ڈالرز (تقریباً 12 ارب 50 کروڑ پائونڈ) کے کالے دھن کو سفید کرنے میں معاونت کا الزام تھا۔یہ اسکینڈل چارسال تک بلا روک ٹوک جاری رہا اور تفتیش کاروں نے اس کا پہلی بار مئی 2014ء میں مالدووا میں انکشاف کیا۔ اس کیس میں جو برطانوی بینک اکائونٹس ملوث تھے، ان میں ایچ ایس بی سی، رائل بینک آف اسکاٹ لینڈ اور سوئس بینک یو بی ایس شامل ہیں۔ منی لانڈرنگ میں ملوث ہونے پر 2013ء میں ایچ ایس بی سی پرامریکا میں ایک ارب 90 کروڑ ڈالرز جرمانہ لگا۔ اگست 2010ء میں رائل بینک آف اسکاٹ لینڈ نے 56 لاکھ پائونڈ، دسمبر 2010ء میں ساڑھے سات لاکھ پائونڈ، 2011ء میں 28 لاکھ پائونڈ، 2013ء میں 6 کروڑ 20 لاکھ پائونڈ اور 2014ء میں ایک کروڑ 45 لاکھ پائونڈ نے اپنی غلط کاریوں پر جرمانے ادا کئے، یو بی ایس بینک کی فرانس میں شاخ پر 2013ء میں ایک کروڑ 30 لاکھ ڈالرز جرمانہ لگا۔ جنوری 2014ء میں ایک گروہ نے مانچسٹر کے بینکوں کو منشیات سے دو کروڑ پائونڈ کی ناجائز آمدنی کی منی لانڈرنگ کیلئے استعمال کیا، جسے بالآخر جیل کی ہوا کھانی پڑی، اس حوالے سے پولیس نے چار افراد کامران بٹ، اسٹیون میکنا، انتصار احمد اور شان مور پر کڑی نگاہ رکھی تھی۔ ان افراد کو کارندوں کے طور پر مشرق بعید کے ایک کارٹل نے بھرتی کیا تھا۔ جون 2013ء میں غیرملکی جرائم پیشہ عناصر کے لئے ایک کروڑ 90 لاکھ پائونڈ کی منی لانڈرنگ کے الزام میں ایک 8 رکنی گروہ کو برطانیہ میں 47 برس قید کی سزا دی گئی۔سیریئس آرگنائزڈ کرائم ایجنسی (ایس او سی اے) کی نگراں ٹیموں نے اس گروہ پر کڑی نظر رکھی۔ تحقیقات کے نتیجے میں ان کے قبضے سے 7 لاکھ 30 ہزار پائونڈ اورڈیڑھ کلوگرام ہیروئن ضبط کی گئی۔ اسی طرح مارچ 2015ء میں برطانوی حکام نے بینک آف بیروت (یوکے) لمیٹڈ پر 21 لاکھ پائونڈ جرمانہ عائد کیا۔ 20 جنوری 2014ء کو ایک برطانوی اخبار کے مطابق برطانیہ میں منی لانڈرنگ جو 2012ء میں 7 کروڑ پائونڈ تھی وہ 2013ء میں 309 فیصد اضافے کے ساتھ، 28 کروڑ 80 لاکھ پائونڈ تک پہنچ گئی۔ برطانوی فنانشیل سروسز اتھارٹی کی 6 جون 2011ء کی رپورٹ کے مطابق منی لانڈرنگ کا حجم 23 ارب سے 57 ارب پائونڈ کے درمیان تھا جبکہ اس حوالے سےاقوام متحدہ کی 2009ء میں رپورٹ کے مطابق دُنیا بھر میں منی لانڈرنگ کا حجم 800 ارب ڈالرز سے دو ٹریلین ڈالرز کے درمیان رہا۔ یہ حقیقت بھی قارئین کے لئے چشم کشا ہوگی کہ منی لانڈرنگ کے الزام میں 2009ء سے 2013ء کے دوران بینکوں نے 166 ارب ڈالرز جرمانوں کی مد میں ادا کئے۔ بینک آف امریکا نے 66 ارب 40 کروڑ پائونڈ، جے پی مورگن اینڈ چیز نے 35 ارب 78 کروڑ پائونڈ، لائیڈز نے 12 ارب 72 کروڑ پائونڈ، رائل بینک آف اسکاٹ لینڈ نے 8 ارب 47 کروڑ پائونڈ، بارکلیز نے 7 ارب 89 کروڑ پائونڈ، سٹی گروپ نے 7 ارب 57 کروڑ پائونڈ، ایچ ایس بی سی نے 7 ارب 21 کروڑ پائونڈ اور ڈوئچے بینک نے 5 ارب 63 کروڑ پائونڈ کے جرمانے دیئے۔ واضح رہے کہ معروف برطانوی خاتون سیاست دان اور سابق رکن یورپی پارلیمنٹ نکول سنکلیئر پر جولائی 2014ء میں منی لانڈرنگ کے الزام میں سزا دی گئی جبکہ جون 2015ء میں معروف برطانوی گلوکارہ گیبریلا ایلا ہینڈرسن کے والد کو مالی بدعنوانی پر سزا دی گئی۔ 2000ء کی دہائی میں ایران کے لئے 250 ارب ڈالرز کی منی لانڈرنگ کے الزام میں برطانیہ کے اسٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک پر 33 کروڑ ڈالرز جرمانہ عائد کیا گیا۔