ترکی، ’پاکیزہ نسل‘ کے لیے نصاب میں تبدیلیاں

13  فروری‬‮  2015

مسیحی پادری احمت گووَینر ترکی کے ایک اسکول میں دی جانی والی لازمی مذہبی تعلیم سے اپنی بیٹی کو استثنیٰ دلوانے میں تو کامیاب ہو گئے لیکن انہوں نے جلد ہی محسوس کیا کہ یوں ان کی سترہ سالہ بیٹی کی مشکلات دور نہیں ہوئی ہیں۔ ترکی کے جنوب مشرقی شہر دیار بکر میں واقع ایک اسکول میں زیر تعلیم گووَینر کی بیٹی کو تین اختیاری مضامین میں سے ایک کا انتخاب کرنا تھا، جن میں پیغمبر اسلام کی زندگی، قرآن یا بنیادی مذہبی تعلیم کے آپشن دیے گئے تھے۔ اگر وہ ان میں سے کسی ایک مضمون کا انتخاب نہ کرتی تو فیل قرار دے دی جاتی۔ دیار بکر میں ایک پروٹسٹنٹ چرچ کے سربراہ گووَینر نے ایسوسی ایٹڈ پریس سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا، ’’میری بیٹٰی کی نفسیات پر بہت بُرا اثرمرتب ہوا ہے۔‘‘ انہوں نے اسکول کی انتظامیہ پر الزام عائد کیا کہ وہ بچوں پر مذہبی تعلیم زبردستی مسلط کر رہی ہے۔ تاہم اسکول نے اس الزام کو مسترد کر دیا ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ جدید ترکی کے بانی مصطفیٰ کمال اتا ترک کے سیکولر نظریات کے تناظر میں بالخصوص تعلیمی نظام میں بڑے پیمانے پر اصلاحات کی گئی تھیں تاہم اب رجب طیب ایردوآن کی اسلام پسند سیاسی جماعت کے اقتدار میں آنے کے بعد نصاب کو مذہبی بنیادوں پر استوار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ گووَنیر کا کہنا ہے کہ دیار بکر کے جس اسکول میں اس کی بیٹی تعلیم حاصل کر رہی ہے، وہاں اختیاری مضامین میں صرف تین مذہبی کلاسوں کا آپشن دیا جاتا ہے جبکہ طالب علم کسی دیگر مضمون کا انتخاب کر ہی نہیں سکتا۔ تاہم گووَنیر نے مزید بتایا کہ جب انہوں نے اس حوالے سے میڈیا سے بات کی تو اسکول انتظامیہ نے ان کی بیٹی کو اختیاری مضمون کے طور پر اسٹرانومی کی کلاس کی پیشکش کر دی۔ ترک سیکولر روایات کے امین دعویٰ کرتے ہیں کہ ایردوآن ایک نیا راستہ اختیار کرتے ہوئے نصاب میں اسلام پر زیادہ توجہ مرکوز کر رہے ہیں تاکہ ’ایک پاکیزہ نسل‘ کی تربیت کی جا سکے۔ دوسری طرف اسلام پسند جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ حکمران جماعت کا اصرار ہے کہ وہ صرف قدامت پسند اور نیک اکثریت کے مطالبات پر عمل کر رہی ہے۔ ایجوکیشن اینڈ سائنس لیبررز یونین کی سیکرٹری جنرل سکینہ ایسن یلماز کہتی ہیں، ’’تعلیم دراصل نظریات کے پرچار کا ایک آلہ ہے، اب اسے ایک ایسی فرمانبردار نسل پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، جو حکومت کی خدمت کر سکے۔‘‘ انقرہ حکومت کی طرف سے کیے جانے والے دیگر اقدامات میں تعلیمی اداروں میں اسکارف پر پابندی میں نرمی کے علاوہ مدرسوں کی تعداد میں اضافہ اور اسکولوں میں ایسے روایتی پروگرامز پر پابندی بھی شامل ہے، جن میں طالب علم ملک کی سیکولر روایات کے تحفظ کا عزم کرتے تھے۔ حکومت کی اتحادی ماہر تعلیم شخصیات کا کہنا ہے کہ ترکی اپنی ثقافتی اقدار کی جانب لوٹ رہا ہے۔ ان تبدیلوں کا دفاع کرتے ہوئے ایک حکومت نواز ٹیچر یونین کے نائب سربراہ علی یالچن (Ali Yalcin) کہتے ہیں، ’’ترکی میں جو تعلیم دی جا رہی تھی، وہ ہمارے عوام کی ثقافت اور تہذیب سے براہ راست متصادم تھی۔‘‘ ابھی گزشتہ ہفتے ہی استنبول میں ایک احتجاج میں شریک مظاہرین نے حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ تعلیمی نظام میں سیکولر روایات کو برقرار رکھا جائے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکومت سنی عقیدے کو مسلط کرنے کی دانستہ مہم کو روک دے۔ سیکولر نظریات کے حامی ان مظاہرین کے مطابق حکومت کو ملک کی بڑی مذہبی اقلیت علوی فرقے کے حقوق کا خیال کرنا چاہیے۔



کالم



رِٹ آف دی سٹیٹ


ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…