بدھ‬‮ ، 05 ‬‮نومبر‬‮ 2025 

جاپان کا ایسا شہر جہاں کوڑا دان نہیں

datetime 17  جون‬‮  2019
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

ٹوکیو (این این آئی)ویسے تو میونسپل حکام شہریوں کو کچرا باہر گلی یا سڑک پر نہ پھینکنے اور اس کے لیے مخصوص کوڑا دان میں پھینکے کی ہدایت کرتے ہیں لیکن جاپان کے ایک شہر میں شہریوں کو نہ صرف کچرا خود اٹھا کر اسے قابل استعمال بنانے کی فیکٹری (ری سائیکلنگ) تک لے کر جانا پڑتا ہے بلکہ اس سے پہلے کچرے اور کوڑا کرکٹ کو چھان کر 45 مختلف کٹیگریز میں تقسیم بھی کرنا پڑتا ہے۔

جاپان کے شہر کامی کاتسو کے رہائشیوں کے لیے کچرے کو ٹھکانے لگانا اتنا آسان نہیں جتنا دنیا کے دوسرے حصوں میں ہے کہ آپ نے گھر سے کچرا اٹھا کر باہر میونسپل کمیٹی کی جانب سے رکھے گئے کچرا دان میں پھینک دیا۔کامی کاتسو میں نہ کچرا اٹھانے کے لیے کچرا دان رکھے گئے ہیں اور نہ میونسپل اتھارٹی کچرا اٹھاتی ہے۔شہر کی میونسپل اتھارٹی نے 2020 ء تک کامی کاتسو کو کچرا فری بنانے کا ہدف مقرر کر رکھا ہے۔ شہر کے باسیوں کو نہ صرف کچرا خود اٹھانا پڑتا ہے بلکہ کچرے کو قابل استعمال بنانے کی فیکٹری تک لے جانے سے پہلے ہر قسم کا کوڑا کرکٹ الگ کرنا پڑتا ہے۔میونسپل اتھارٹی نے کچرے کی 45 کیٹگریز بنائی ہیں جس میں تکیے سے لے کر ٹوتھ برش تک شامل ہیں۔شہر کے 15 بزار باسیوں میں سے ایک ناؤکو یوکویاما کا خبر رساں ادارے اے ایف سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا ’‎جی ہاں، کچرے کو الگ کرنا ایک مشکل کام ہے۔ لیکن ایک سال پہلے جب میں یہاں منتقل ہوا تب سے میں ماحولیات کے حوالے سے حساس ہو گیا ہوں۔میونسپل حکام کا کہنا ہے کہ اگلے سال تک شہر میں پیدا ہونے والے کچرے کو مکمل طور پر ری سائیکل کیا جائے گا اور کوئی بھی چیز کچرا جلانے کی مشین کو نہیں بھیجی جائے گی۔یہ پورا عمل بہت ہی محنت طلب ہے کیونکہ نہ صرف کچرے کو چار درجن کٹیگریز میں الگ کرنا پڑتا ہے بلکہ پلاسٹک کے تھیلے اور بوتلوں کو دھو کر خشک کرکے ری سائیکلنگ فیکٹری پہنچانا پڑتا ہے تاکہ ری سائیکلنگ کے عمل میں آسانی ہو۔ ری سائیکلنگ کی فیکٹری میں ہر کٹیگری کے لیے درجنوں باکسز رکھے گئے ہیں اور اگر کسی کچرے کے مختلف حصے مختلف کٹگریز میں آتے ہیں تو شہریوں کو ایسی اشیا کو توڑ کر اس کے حصے مخصوص کٹیگریز کے باکس میں ڈالنا پڑتا ہے۔ایک آدمی جو پرانی الماری لے

کر آیا اسے ہتھوڑے سے توڑنا پڑا تاکہ لکڑی اور لوہے کے حصے الگ کیے جا سکیں۔جاپان کے بہت سے علاقوں میں کچرے کو الگ کرنا پڑتا ہے لیکن وہاں چند ایک کٹگریز ہیں اور زیادہ کچرا انسنریٹر نامی مشین میں جلانے کے لیے جاتا ہے۔سنہ 2010 تک کامی کاتسو بھی جاپان کے دوسرے علاقوں سے کوئی مختلف نہیں تھا۔ 2010 میں شہر کے دو میں سے ایک انسنریٹر کو بند کرنے کا حکم جاری ہوا کیونکہ یہ دھوئیں کے اخراج کے حوالے

سے مقرر کردہ معیار پر پورا نہیں اترتا تھا۔ ایک انسنریٹر کے بند ہونے کے بعد شہر میں کچرا ٹھکانے لگانے کے لیے صرف ایک انسنریٹر رہ گیا جو شہر کے تمام کچرے کوجلانے کے لیے ناکافی تھا اور شہر کے میونسپل حکام کے پاس نیا خریدنے یا قریبی ٹاؤن کے انسنریٹر کو کچرے کو ٹھکانا لگانے کے لیے دینے کو پیسے نہیں تھے۔کامی کاتسو کچرے کو ری سائیکل کرنے کے ہدف کے قریب ہے اور 2017 میں 80 فیصد کچرے کو قابل استعمال بنایا گیا۔‎

موضوعات:

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



دنیا کا انوکھا علاج


نارمن کزنز (cousins) کے ساتھ 1964ء میں عجیب واقعہ پیش…

عدیل اکبرکو کیاکرناچاہیے تھا؟

میرا موبائل اکثر ہینگ ہو جاتا ہے‘ یہ چلتے چلتے…

خود کو ری سیٹ کریں

عدیل اکبر اسلام آباد پولیس میں ایس پی تھے‘ 2017ء…

بھکاریوں سے جان چھڑائیں

سینیٹرویسنتے سپین کے تاریخی شہر غرناطہ سے تعلق…

سیریس پاکستان

گائوں کے مولوی صاحب نے کسی چور کو مسجد میں پناہ…

کنفیوز پاکستان

افغانستان میں طالبان حکومت کا مقصد امن تھا‘…

آرتھرپائول

آرتھر پائول امریکن تھا‘ اکائونٹس‘ بجٹ اور آفس…

یونیورسٹی آف نبراسکا

افغان فطرتاً حملے کے ایکسپرٹ ہیں‘ یہ حملہ کریں…

افغانستان

لاہور میں میرے ایک دوست تھے‘ وہ افغانستان سے…

یہ ہے ڈونلڈ ٹرمپ

لیڈی اینا بل ہل کا تعلق امریکی ریاست جارجیا سے…

دنیا کا واحد اسلامی معاشرہ

میں نے چار اکتوبر کو اوساکا سے فوکوشیما جانا…