لاہور (نیوز ڈیسک) ہر فرد زندگی کے کسی نہ کسی مقام پر ایسی صورتحال سے دوچار ہوتا ہے کہ جب اسے اپنے غصے کو اندر ہی اندر دبانا پڑتا ہے اور برداشت سے کام لینا پڑتا ہے۔ جلنے کڑھنے کی کیفیت کو سمجھنا ہر فرد کیلئے آسان ہوتا ہے لیکن اکثریت کیلئے یہ جاننا مشکل ہوتا ہے کہ وہ کس وقت اس جلن کڑھن کا اظہار بھی شروع کردیتے ہیں۔ اگرآپ اپنے اندر موجود اس غصے کا اظہار کرتے رہتے ہیں تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ آپ ایک برے انسان ہیں۔ ماہرین نفسیات کا ماننا ہے کہ
جلن کڑھن کا اظہار کرنے پر مبنی حکمت عملی اس وقت اپنائی جاتی ہے جب کسی فرد کو یہ یقین ہو کہ وہ اپنے ذہن اور سوچ کے مطابق اپنے خیالات کا اظہار کرنے کا اہل نہین ہے۔ ایسا کرتے ہوئے فرد کو خود بھی احساس بھی نہیں ہوتا ہے کہ وہ اپنے رویئے سے اپنے ماحول میں موجود افراد سے خود کو دور کررہا ہے۔ اگر آپ کو محسوس ہوتا ہے کہ کبھی کبھار آپ بھی ایسا ہی رویہ اپنا لیتے تاہم آپ کو یہ یقین نہیں ہے کہ آپ سچ مچ میں ایسا کرتے ہیں یا نہیں تو یہ سات علامات موجود ہیں جن کی مدد سے آپ جان سکتے ہیں کہ آپ بھی جلنے کڑھنے کی اس عادت کا شکار ہیں یا نہیں۔ دوسروں کی خوشی پر خوش ہونے کے بجائے حسرت کا اظہار کرنا جلنے کڑھنے کی ایک علامت ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ کی دوست کہتی ہے کہ وہ پارٹی میں جارہی ہے اور آپ فوراً کہتی ہیں کہ ہائے کاش میں بھی جاپاتی یا پھر کسی دوست کی شاپنگ کو دیکھ کے یہ کہنا کہ اگر میرے پاس بھی پیسے ہوتے تو میں بھی شاپنگ کرتی لیکن میری تو ساری تنخواہ ضروریات کو پورا کرنے میں اٹھ جاتی ہے تو ایسے میں یہ اظہار حسرت ہے۔ اس سے دوسروں کو تاسف میں مبتلا کیا جاتا ہے اور انہیں نامعلوم احساس جرم کا شکار بنایا جاتا ہے۔ بعض اوقات جلنے کڑھنے کے عمل میں حسد بھی شامل ہوجاتا ہے اور پھر ایسے میں آپ کیلئے ان رویوں کا اظہار مشکل ہوجاتا ہے جیسا کہ آپ چاہتے ہیں اور آپ خواہش کے برعکس سخت رویہ اپنا لیتے ہیں۔ مثلاً آپ اس انتظار میں ہیں کہ آپ کامحبوب کب آپ کو شادی کی پیشکش کرے اور
آپ کی سہیلی اپنی منگنی کی انگوٹھی دکھاتی ہے تو اپنے بوائے فرینڈ پر غصہ آپ اپنی سہیلی پر یہ کہہ کہ نکال دیتی ہین کہ یہ ہیرا تو بہت چھوٹا ہے، دینا ہی تھا تو بڑا ہیرا تو دیتا۔ بعض اوقات کچھ نہ کہنا بھی اسی رویئے کا اظہار کرتا ہے۔ مثال کے طور پر میٹنگ کے دوران سپیکر کی بات پر توجہ دینے کے بجائے اپنا موبائل چیک کرنا یا اگر دوست بات کرنے کی کوشش کرے تو انجان بنتے ہوئے موبائل دیکھنا شروع کردینا ایسے ہی رویوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ ایسے رویوں میں تبدیلی کیلئے
اپنا موبائل ساتھ لانا چھوڑ دیں یا اگر اتفاق سے آپ کو کوئی ایسا پیغام موصول ہوگیا ہے جس کا فوری جواب ضروری ہے تو ایسے میں معذرت کے بعد کام مکمل کریں۔ خود کو اذیت دینا بھی اس کی ایک مثال ہے۔ مثال کے طور پر آپ اپنی نوکری سے خوش نہیں ہیں یا پھر کوئی خاص پروجیکٹ آپ کو پسند نہیں ہے تو ایسے میں آپ اپنا زیادہ وقت فالتو کاموں میں گزارتے ہیں یا پھر پروجیکٹ کو آخری وقت تک ٹالتے ہیں تو یہ بھی اسی رویئے کی ایک مثال ہے۔ آخری دن باس کی جانب سے
پوچھنے پر آپ صاف انکار کردیتے ہیں کہ آپ کو اس بارے میں کوئی پیغام موصول نہیں ہوا تو دراصل یہ انتہائی شدید نوعیت کی منفی سوچ کی نشاندہی ہے۔ کچھ لوگ اس منفی رویئے کے اظہار کیلئے کسی ایک فرد کو جسے وہ ناپسند کرتے ہیں، اپنی محفل سے نکال باہر کرنے کیلئے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر آپ کو اپنا ایک ساتھی ناپسند ہے تو آپ دفتر میں ایک چائے کی دعوت کا اہتمام کرتے ہیں اور اس کے سوا باقی سب کو مدعو کرتے ہیں۔ یہ رویہ اگر شدت اختیار کرجائے تو
زیادہ خطرناک ہوجاتا ہے جب آپ اپنے ساتھی کو نقصان پہنچانے کی حد تک تنہا کردیتے ہیں۔ مثال کے طور پر آپ اسے ضروری ای میلز فارورڈ کرنا بھول جاتے ہیں یا پھر یہ بتانا بھول جاتے ہیں کہ پروجیٹک کی ڈیڈ لائن تبدیل ہوچکی ہے۔ اگر آپ کا ساتھی وزن کم کرنے کی کوشش کررہا ہے تو آپ اس کیلئے بھول پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے کیک لے جاتے ہیں۔ دونوں صورتوں میں یہ رویہ ظاہر کرتا ہے کہ آپ لاشعوری طور پر حسد کا شکار ہیں اور اپنے دوست کی قوت ارادی سے ناخوش ہیں۔ دوسروں سے بدلہ لینے کی خواہش بھی اسی منفی رویئے کا اظہار ہے۔ مثال کے طور پر آپ کا دوست کسی مجبوری کی وجہ سے آپ کے ہاں شادی میں نہیں آپاتا ہے۔ یہ صورتحال یقینی طور پر مایوس کن ہے لیکن آپ اس پر اس سے براہ راست باز پرس کرنے کے بجائے بدلہ لینے کا فیصلہ کرتے ہیں اور پھر ان کے ہاں ہونے والی سالگرہ کی تقریب میں نہیں جاتے تو یہ ظاہر کرتا ہے کہ آپ دوسروں کے ساتھ یا پھر اس مخصوص شخص کے ساتھ مصالحانہ یا دوستانہ رویہ اپنانے کے قابل نہیں ہیں۔