واشنگٹن(این این آئی)پاکستان میں کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے آگاہی، خوراک کا تحفظ، سماجی فاصلہ اور فیس ماسکس وہ 4 فوری طور پر اٹھائے جانے والے ضروری اقدامات ہیں۔میڈیارپورٹس کے مطابق یہ بات امریکا میں مقیم پاکستانی ڈاکٹروں اور سائنسدانوں نے کہی۔کووِڈ 19 انفیکشنز جولائی کے اختتام تک 12 لاکھ تک پہنچ جانے کے خدشے کے پیشِ نظر انہوں نے پاکستانی شہریوں پر زور دیا کہ
نئے کیسز کی تعداد کو روکنے کے لیے حفاظتی ہدایات پر سختی سے عمل کریں۔ان میں سے کچھ نے تجویز دی کہ فوری طور پر کم سے کم 2 یا 3 ہفتوں کا لاک ڈاؤن لگادیا جائے جس کے بعد اسے ا?ہستہ ا?ہستہ کھولا جائے جبکہ کچھ ماہرین کی تجویز یہ تھی کہ اس قسم کا لاک ڈاؤن آئیڈیل ہے لیکن اس پر عملدرآمد مشکل ہے۔نوبیل انعام یافتہ ایڈوکیسی گروپ کے لیے کام کرنے والے ڈاکٹر خالد عبداللہ نے ڈاکٹروں سے سماجی ذمہ داری کا مطالبہ کیا اور کہا کہ پاکستان میں ’مکمل لاک ڈاؤن کا نفاذ‘ تقریباً نا ممکن ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمیں جنوبی ایشیا میں 3 بڑی معذوریوں کا سامنا ہے گنجان ا?بادی، غربت اور شعور کی کمی اور ہمیں اپنی منصوبہ بندی اسی حساب سے کرنی چاہیئے، جہاں ایک چھوٹے سے گھر میں 10 سے 15 افراد رہائش پذیر ہوں وہاں لاک ڈاؤن کام نہیں کرے گا۔ڈاکٹر خالد عبداللہ نے اس بات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہ پاکستان کی آبادی کا ایک بڑا حصہ یومیہ اجرت کمانے والوں پر مشتمل ہے کہا کہ مکمل لاک ڈاؤن سے لاکھوں افراد فاقہ کشی پر مجبور ہوجائیں گے۔ان کے مطابق دوسرا سب سے بہترین آپشن سماجی ذمہ داریوں کا فروغ ہے جس میں ہاتھ دھونا، فیس ماسک پہننا اور محفوظ فاصلہ اختیار کرنا شامل ہے۔ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ سماجی ذمہ داریوں کا شعور بیدار کرنے کے لیے میڈیا کو بھی اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے اس لیے ٹوٹکے اور جعلی علاج دکھانے بند کیے جائیں اور ان مسائل پر بات کے لیے سیاستدانوں اور سیلیبریٹیز کو بلانے کے بجائے طبی ماہرین کو بلایا جائے۔
ڈاکٹر خالد عبداللہ نے حکومت پر زور دیا کہ خوراک کی فراہمی کے لیے’ایک سپلائی چین‘ قائم کی جائے کیوں کہ چاہے ہم کچھ بھی کریں اس بحران سے غربت اور بھوک میں اضافہ ہوگا۔انہوں نے کہا کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں حکومت کو مالی ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے کیوں کہ بجٹ میں صحت اور تحفظ خوراک کے لیے مختص کی گئی رقم سے کام نہیں بنے گا اور ہمیں مزید کچھ کرنا ہوگا۔