منگل‬‮ ، 24 دسمبر‬‮ 2024 

کورونا کے مریضوں کو صحت یاب ہونے کے بعد بھی کئی ماہ تک کن مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے؟تحقیق میں ہوشربا انکشاف

datetime 1  جون‬‮  2020
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

لندن(این این آئی)کورونا وائرس کے مریضوں کو صحتیابی کے بعد کئی ماہ تک بہت زیادہ تھکاوٹ اور سانس لینے میں دشواری کا سامنا ہوسکتا ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق یہ بات برطانیہ سے تعلق رکھنے والے سائنسدانوں نے ایک مقالے میں بتائی۔برطانوی حکومت کے سائنٹیفک ایڈوائزری گروپ آن ایمرجنسیز کی جانب سے جاری مقالے میں خدشہ ظاہر کیا گیا کہ یہ وائرس طویل المعیاد بنیادوں پر طبی مسائل کا باعث بن سکتا ہے۔

سائنسدانوں نے 7 مئی کو ملاقات کرکے کورونا وائرس سے منسلک متعدد پیچیدگیوں بشمول فالج، گردوں کے امراض اور اعضا کے افعال ناکام ہونے پر بات کی گئی۔انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ نئے نوول کورونا وائرس کے نتیجے میں طویل المعیاد اثرات مرتب ہوسکتے ہیں جن کا سامنا مریضوں کو کئی ماہ تک ہوسکتا ہے۔مختلف پیچیدگیوں اور علامات پر بحث کے بعد مقالے میں کہا گیا کہ سائنسدانوں نے طویل المعیاد اثرات کی موجودگی کو نوٹ کیا جیسے کئی ماہ تک بہت زیادہ تھکاوٹ اور سانس لینے میں دشواری، جبکہ اس بات کی اہمیت پر زور دیا گیا کہ ان اثرات کا جائزہ طویل عرصے تک جاری والی تحقیقی رپورٹس میں لیا جائے۔ایک سائنسی مشیر نے کہا کہ شدید بیماری کے بعد صحتیاب مریضوں کی صحت کا جائزہ لینے کے بعد دریافت کیا گیا کہ بڑی تعداد میں افراد جلد معمول کی زندگی پر لوٹ نہیں سکتے۔اس حوالے سے متعدد سائنسدان کام کررہے ہیں تاکہ معلوم کیا جاسکے کہ صحتیابی کے بعد طویل المعیاد اثرات کب تک برقرار رہ سکتے ہیں۔گزشتہ ہفتے برطانیہ کے صحت کے ادارے این ایچ ایس کے سربراہ نے انتباہ دیا تھا کہ وائرس سے ہونے والے نقصان پر قابو پانے کے لیے ہزاروں افراد کو این ایچ ایس کی مدد کی ضرورت ہوسکتی ہے۔

این ایچ ایس کے چیف ایگزیکٹو سر سائمن اسٹیونز نے کہا تھا کہ اگرچہ ہمارا ملک کورونا وائرس کی ابتدائی وبا سے باہر نکل رہا ہے مگر ہمیں بحالی اور نگہداشت پر توجہ دینا ہوگی۔انہوں نے کہا کہ کچھ افراد کو صحتیابی کے بعد بھی نگہداشت کی ضرورت ہوسکتی ہے، شدید بیماری کے بعد دماغی تنزلی اور نفسیاتی مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے جبکہ متعدد افراد کو روزمرہ کے کاموں کے لیے سماجی تعاون کی ضرورت ہوسکتی ہے۔برطانیہ میں گزشتہ ہفتے ایک ہسپتال کو کورونا وائرس کے صحتیاب مریضوں کے مختص کیا گیا تھا تاکہ ان کو طویل المعیاد اثرات سے بچایا جاسکے۔

تحقیق میں اب تک دریافت کیا گیا ہے کہ آئی سی یو میں زیرعلاج رہنے والے کووڈ 19 کے مریضوں میں طویل المعیاد طبی مسائل بشمول ذہنی صدمے کا سامنا ہوسکتا ہے۔متعدد کیسز میں صحتیاب مریضوں کو ایک سے زیادہ طویل المعیاد اثرات کا سامنا ہوسکتا ہے جبکہ کچھ کو چلنے کے لیے بھی مدد کی ضرورت ہوسکتی ہے۔ماہرین کا تو یہ بھی کہنا تھا کہ چند مریض جو بہت زیادہ بیمار نہیں ہوئے اور ہسپتال جانے کی ضرورت نہیں پڑی، ان کو بھی 2 ماہ تک بحالی نو کے لیے مدد کی ضرورت ہوسکتی ہے۔تحقیق سے عندیہ ملا کہ کووڈ کے ہر 20 میں سے ایک مریض کو کم از کم ایک ماہ تک طبی مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔

موضوعات:



کالم



طفیلی پودے‘ یتیم کیڑے


وہ 965ء میں پیدا ہوا‘ بصرہ علم اور ادب کا گہوارہ…

پاور آف ٹنگ

نیو یارک کی 33 ویں سٹریٹ پر چلتے چلتے مجھے ایک…

فری کوچنگ سنٹر

وہ مجھے باہر تک چھوڑنے آیا اور رخصت کرنے سے پہلے…

ہندوستان کا ایک پھیرا لگوا دیں

شاہ جہاں چوتھا مغل بادشاہ تھا‘ ہندوستان کی تاریخ…

شام میں کیا ہو رہا ہے؟

شام میں بشار الاسد کی حکومت کیوں ختم ہوئی؟ اس…

چھوٹی چھوٹی باتیں

اسلام آباد کے سیکٹر ایف ٹین میں فلیٹس کا ایک ٹاور…

26نومبر کی رات کیا ہوا؟

جنڈولہ ضلع ٹانک کی تحصیل ہے‘ 2007ء میں طالبان نے…

بے چارہ گنڈا پور

علی امین گنڈا پور کے ساتھ وہی سلوک ہو رہا ہے جو…

پیلا رنگ

ہم کمرے میں بیس لوگ تھے اور ہم سب حالات کا رونا…

ایک ہی بار

میں اسلام آباد میں ڈی چوک سے تین کلومیٹر کے فاصلے…

شیطان کے ایجنٹ

’’شادی کے 32 سال بعد ہم میاں بیوی کا پہلا جھگڑا…