کراچی(این این آئی)حالیہ تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی کا وزن زیادہ ہے یا اسے موٹاپے کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے لوگوں کی اکثریت متعدد بیماریوں اور صحت کی پیچیدگیوں کا شکار ہوجاتی ہے جو مہلک ثابت ہوسکتی ہے۔پاکستان ہیلتھ ریسرچ کونسل کے حالیہ سروے رپورٹ میں مدد کرنے والے عہدیداروں اور ماہرین نے بتایا کہ تازہ اعداد و شمار سے معاشرے میں
خطرناک رجحانات ظاہر ہوئے ہیں جہاں نہ صرف بالغ افراد بلکہ بچے بھی موٹاپے سے منسلک بیماریوں کے مریض بن رہے ہیں۔ایک ذرائع نے تحقیق کے نتائج کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ملک گیر مطالعے میں ماہرین نے دو کٹ آف کو معیار کے طور پر رکھا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں 58.1 فیصد لوگوں کا وزن زیادہ ہے اور 43.9 فیصد آبادی موٹاپے کا شکار ہیں، اسی طرح ایشین کٹ آف کے مطابق ، پاکستان میں 72.3 فیصد لوگ زیادہ وزن اور 58.1 فیصد آبادی موٹاپے کا شکار ہیں، یہ تازہ ترین اعداد و شمار ہیں جو ایک خطرناک رجحان کا بتاتے ہیں۔صحت کے پیشہ ور افراد اور پریکٹیشنرز نے اس مطالعے کو ویک اپ کال (خبردار کرنا) کے طور پر دیکھا اور صحت مند طرز زندگی کو فروغ دینے پر زور دیا جس میں روزانہ ورزش کی اہمیت، صحت مند کھانے اور چھوٹے بچوں کو جسمانی سرگرمی میں حصہ لینے اور جنک فوڈ سے گریز کی ضرورت کے بارے میں تعلیم دلانا شامل ہے۔زیادہ وزن اور موٹاپا کے بارے میں حالیہ تحقیق میں پی ایچ آر سی کی مدد کرنے والے بقائی انسٹی ٹیوٹ آف ذیابیطس اور اینڈو کرینولوجی کے ڈاکٹر مسرت ریاض کا کہنا تھا کہ انتہائی خطرناک بات یہ ہے کہ ہم بچوں میں یہ رجحانات دیکھ رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم اس رجحان کے بارے میں بات کریں تو شہر اور دیہات تقسیم نہیں ، معاشرے کے ہر طبقے کے مختلف لوگوں کے ساتھ یہ
ایک جیسا ہی ہے تاہم اس کے ساتھ ہی ہم نے ان مسائل (وزن اور موٹاپا) کے بارے میں لوگوں میں ایک طرح سے شعور اجاگر کیا ہے لیکن ہمیں اجتماعی طور پر بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔یہ تازہ ترین اعداد و شمار ایک بین الاقوامی ادارہ صحت کے انتباہ کے مہینوں بعد سامنے آئے ہیں جس میں بتایا گیا تھا کہ ذیابیطس کے مرض میں اضافے کے حوالے سے پاکستان اب دنیا کے 10 ممالک میں شامل ہے۔
بین الاقوامی ذیابیطس فیڈریشن (آئی ڈی ایف) نے گزشتہ سال نومبر میں دنیا بھر میں ذیابیطس کے پھیلاؤ میں تشویشناک اجافے کو اجاگرکرنے والے نئے اعداد و شمار جاری کیے تھے۔اس نے بتایا تھا کہ 2017 میں شائع ہونے والے نتائج کے مقابلے میں اب 38 ملین زیادہ بالغ افراد ذیابیطس کے ساتھ عالمی سطح پر زندگی گزار رہے ہیں۔