لاہور (آئی این پی ) زرعی ماہرین نے کہاہے کہ پاکستان اپنی ضرورت کا صرف 14فیصد (462ہزار ٹن) خوردنی تیل پیدا کرتا ہے ،86فیصد (3264ہزار ٹن) تیل درآمد کیا جاتا ہے ۔ جس کا خرچہ 285بلین روپے ہیں ۔ پاکستان ، چین اور بھارت کے بعد دنیا کا تیسرا بڑا خوردتی تیل درآمد کرنے والا
ملک بن گیا ہے اور جن ممالک سے تیل درآمد کیا جاتا ہے ان میں ملائیشیااور انڈونیشیا سر فہرست ہیں۔ درآمد کردہ خوردنی تیل کھانے کے لیے انتہائی خطرناک ہے اور بنیادی طور پر صابن اور کاسمیٹکس بنانے کے کام آتا ہے ۔ یہ عام درجہ حرارت پر سالڈ رہتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہر جسم میں جا کر خون کی نالیوں میں جم جاتا ہے اور بہت سی خطرناک بیماریوں کا باعث بنتا ہے ۔ جس میں دل کی بیماریاں سر فہرست ہیں۔ ماہر ین نے مزید کہا کہ تیل دار اجناس کی مختلف انواع کی فصلات کی ایک طویل فہرست ہے جن سے تیل حاصل کیاجاسکتا ہے ۔ اس میں سرسوں ، توریا، رایا، کینولا، تل ، مونگ پھلی، السی ، تارا میرا،سورج مکھی ، سویا بین ، کپاس اور مکئی وغیرہ شامل ہیں۔ کینولا اور سورج مکھی کا تیل صحت کے لیے موزوں ترین ہے ۔ اس میں اروسک ایسڈ اور گلوکوسائینولیٹ کی مقدار نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے ۔پاکستان میں اس وقت کینولا کی کاشت کا بالکل صحیح وقت ہے ۔ ماہرین نے اس ضرورت پر زور دیا ہے کہ ہم کاشتکاروں میں آگاہی پیدا کریں کہ کینولا کی کاشت کو بڑھایا جائے ۔ تاکہ ملکی سرمائے میں اضافہ ہو اور درآمدات میں کمی ہو۔ ملکی تاریخ میں پہلی دفعہ حکومت پنجاب نے انقلابی قدم اٹھاتے ہوئے خادم پنجاب کسان پیکج کے تحت تیلد ار اجناس کی کاشت پر سبسڈی سکیم متعارف کرائی ہے جوکہ ملکی کفالت کی طرف پہلا قدم ہے ۔ ایک کسان دس ایکڑ تک کاشت کے لیے سبسڈی سکیم سے فائدہ اٹھا سکے گا۔