برطانیہ (مانیٹرنگ ڈیسک) اگر آپ صحت کے لیے فائدہ مند غذائیں استعمال کرتے ہیں مگر ایک معمولی احتیاط نہیں اپناتے تو ہارٹ اٹیک، فالج یا گردوں کے جان لیوا امراض کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ یہ انتباہ برطانیہ میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آیا۔ امپرئیل کالج لندن کی تحقیق میں بتایا گیا کہ غذا چاہے جتنی بھی صحت بخش ہو، مگر نمک کی زیادہ مقدار کو اس میں ملانا جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے۔
نمک کی کتنی مقدار صحت کے لیے محفوظ؟ تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ لوگوں کو اپنی غذا میں نمک کی مقدار کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے ورنہ ہائی بلڈ پریشر کا مرض شکار بناکر دیگر جان لیوا بیماریوں کا خطرہ بڑھا دیتا ہے۔ اور یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ہائی بلڈ پریشر ہی ہارٹ اٹیک اور فالج سمیت دیگر امراض کا خطرہ بڑھاتا ہے۔ پہلے خیال کیا جاتا تھا کہ پھلوں اور سبزیوں میں موجود وٹامنز اور منرلز خون کی شریانوں پر مثبت اثرات مرتب کرتے ہیں اور بلڈ پریشر کی سطح کم کرتے ہیں، جبکہ یہ عادت زیادہ نمک کھانے کی عادت کے نقصانات کی بھی تلافی کرتی ہے۔ تاہم اب نئی تحقیق میں انتباہ کیا گیا ہے کہ زیادہ پھلوں اور سبزیوں کا استعمال بھی نمک کو زیادہ کھانے سے ہونے والے نقصان کی تلافی نہیں کرتا۔ اس تحقیق کے دوران امریکا، برطانیہ، جاپان اور چین کے ہزاروں افراد کی غذائی عادات کا جائزہ لیا گیا۔ نمک جسم پر کیا اثرات مرتب کرتا ہے؟ محققین نے پیشاب کے نمونوں میں نمک اور پوٹاشیم کے امتزاج کا تجزیہ کیا اور یہ دریافت کیا کہ ہائی بلڈ پریشر اور نمک زیادہ کھانے میں تعلق موجود ہے، چاہے لوگ پوٹاشیم اور دیگر غذائی اجزاءکی زیادہ مقدار ہی کیوں نہ جزو بدن بناتے ہوں۔ تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ عام طور پر دن بھر میں اوسطاً 10.7 گرام مقدار نمک لوگ استعمال کرتے ہیں، حالانکہ عالمی ادارہ صحت نے چھ گرام یا ایک چائے کے چمچ کو صحت کے لیے فائدہ مند قرار دیا ہے۔
نمک زیادہ کھانا بلڈ پریشر کو بڑھاتا ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ دیگر جان لیوا امراض کا باعث بن جاتا ہے۔ محققین کا کہنا تھا کہ نتائج سے غذا میں نمک کی کم مقدار کے استعمال کی اہمیت سامنے آئی ہے، اس کے بغیر چاہے جتنی بھی صحت بخش غذا کا استعمال کیا جائے، وہ فائدہ مند ثابت نہیں ہوتی۔ اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل ہائپرٹینشن میں شائع ہوئے۔