اسلام آباد (نیوز ڈیسک) سائنس اور ٹیکنالوجی کی بنیاد پر استوار فارماسوٹیکل انڈسٹری جو کم و بیش 40 لاکھ افراد کو روزگار فراہم کر رہی ہے اور کالج کے فارغ التحصیل ہونے والے سب سے زیادہ نوجوانوں کوملازمت مہیا کرتی ہے اس وقت شدید بحران کا شکار ہے۔ تفصیلات کے مطابق دو سال پہلے تک فارماسوٹیکل انڈسٹری کی برآمدات 210 ملین ڈالر سالانہ اور ترقی کی شرح 29 فیصد سالانہ تھی جو گر کر اب 150 ملین ڈالر رہ گئی ہے۔ ایک ابھرتی ہوئی صنعت جس کے بارے میں بین الاقوامی اور صنعتی اداروں کا خیال تھا کہ یہ صنعت برآمدات میں ترقی کا اہم عنصر ثابت ہو گی آج اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہی ہے۔ مارکیٹ میں داؤں کی شدید قلت ہے۔صنعت ہذا اور ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (DRAP)عدالتوں میں ہیں اور دونوں ایک دوسرے پر بحران کی ذمہ داری کا الزام لگا رہے ہیں۔ ہم نے بحران کے پیچھے موجود عوامل کی تحقیق سے اصل حقائق تک پہنچنے کی کوشش کی ہے ۔ ایک فارماسوٹیکل کمپنی کے مالک نے اپنا نام DRAPکے انتقامی خوف کے باعث خفیہ رکھنے کی شرط پر بتایا کہ ایک موثر اور اہل رجسٹریشن اتھارٹی اور مسابقت کی بنیاد کے بغیر اس صنعت کو بچانا مشکل ہو گیا ہے ۔ اس شخص نے دیگر ترقی پذیر ممالک کی ویب سائٹس کے متعلق بتایا کہ وہاں کس طرح رجسٹریشن اتھارٹی اور بورڈ کے فیصلوں پر عملدرآمد ہوتا ہے۔ ماہانہ کی بنیاد پر اتھارٹی کے اجلاس ہوتے ہیں اور اجلاس کی کارروائی پانچ دن کے اندر اندر ویب سائٹس پر مہیا کر دی جاتی ہے۔ تقریباً دس فارماسوٹیکل کمپنیوں کے ڈائریکٹرز نے بتایا کہ اور اس بات سے DRAPنے بھی انکار نہیں کیا کہ بدقسمتی سے DRAPکے باقاعدگی سے اجلاس ہی نہیں ہوتے اور نہ ہی باقاعدہ لائحہ عمل موجود ہے۔ ایک اجلاس کیلئے چار سے دس ماہ کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ یہ وہی وزارت ہے جہاں 2003-2004ء میں ہر ماہ باقاعدگی سے اجلاس ہوا کرتے تھے جس کی رپورٹ باقاعدگی سے وزارت کی ویب سائٹس پر مہیا کر دی جاتی تھی اور ایک ہفتہ کے اندر اندر دواؤں کے رجسٹریشن لیٹرز جاری کر دیئے جاتے تھے۔ فارماسوٹیکل انڈسٹری سے متعلق گزشتہ تین سالوں کی کارکردگی مسلسل جمود اور تنزلی کا شکار ہے۔ پی پی ایم ایم کے چیئرمین نے بتایا کہ وہ DRAPکی کارکردگی کو موثر اور فعال بنانے کے لئے اپنی تجاویز وفاقی وزیر صحت سارہ افضل تارڑ کو پیش کر چکے ہیں جنہوں نے فارماسوٹیکل انڈسٹری کو اس بحران سے نکالنے کی یقین دہانی کرائی لیکن طاقتور افسرشاہی کے رویہ سے لگتا ہے کہ یہ تجاویز ردی کی ٹوکری کی نذر ہو چکی ہیں۔ سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے این ایچ ایس اورآر اینڈ سی کے پارلیمنٹ کے جنوری 2016ء میں منعقدہ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ آئندہ رجسٹریشن بورڈ کے اجلاس باقاعدگی سے ہوں گے اور تمام زیرالتواء معاملات کو نو ماہ کے اندر اندر نمٹا دیا جائے گا۔ وٹامن پالیسی جو کہ عرصہ دس سال سے التواء کا شکار ہے کو رجسٹریشن بورڈ کے اگلے اجلاس میں زیربحث لایا جائے گا اور عملدرآمد رپورٹ سٹینڈنگ کمیٹی کے آئندہ اجلاس میں پیش کی جائے گی۔ پی پی ایم اے کے ایک اہلکار کی یہ اطلاع انتہائی حیران کن تھی کہ وٹامن پالیسی رجسٹریشن بورڈ کے کسی بھی آئندہ اجلاس کے ایجنڈے کا حصہ نہیں ہے۔ رجسٹریشن بورڈ کے اجلاس تو ہر ماہ ہوتے ہیں لیکن نہ کوئی عملی اقدام کیا جاتا ہے اور نہ ہی کسی فیصلے پر عملدرآمد ہوتا ہے اور دانستہ معاملات میں غیر ضروری تاخیری حربے استعمال کئے جاتے ہیں جیسا کہ رجسٹریشن بورڈ کے اجلاس گزشتہ سال نومبر ، دسمبر کے اجلاسوں کو پانچ ماہ گزرنے کے باوجود ابھی تک رجسٹریشن لیٹرز جاری نہیں کئے گئے اسی طرح رجسٹریشن بورڈ کے فروری 2016ء میں منعقدہ اجلاس کی کارروائی نہ تو ویب سائٹس پر دستیاب ہے اور نہ ہی کوئی رجسٹریشن لیٹر جاری کیا گیا ہے۔ یہ رویہ سینٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی اور پی پی ایم اے کے اجلاس میں ہونے والے فیصلوں کی روح کو مسخ کرنے کی مذموم سازش ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2010-11ء میں جمع کرائی جانے والی دستاویزات پر ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔ یہی صورتحال آنے والے دنوں میں نظر آتی ہے جبکہ اس بارے میں DRAPکے اہلکاروں سے اس تاخیر کی وجہ دریافت کی گئی تو ان کا جواب سٹاف کی کمی تھا۔ کمپنیز نے شکایت کی ہے کہ DRAPنے اپنا دفتر منتقل کرنے میں چار سے پانچ ماہ کا عرصہ لگایا اور دفتر منتقلی کے دوران بہت سی دستاویزات گم کر دیا گیا۔ اب DRAPان دستاویزات کی نقول وصول کرنے سے اس لئے انکاری ہے کہ یہ DRAPکے قواعد و ضوابط کیخلاف ہے۔ رجسٹریشن سیکشن کے ایک ڈپٹی ڈائریکٹر کنٹرولر نے بھی ان دستاویزات کی گمشدگی کی تصدیق کی ہے۔ DRAPکی ناقص کارکردگی کی وجہ سے فارماسوٹیکل انڈسٹری تباہی کے دہانے پر ہے۔ اس مسئلے کے حل کیلئے تینوں فریقین وزارت صحت، DRAPاور فارماسوٹیکل انڈسٹری میں متفقہ حکمت عملی اور روابط کا فقدان ہے۔ اس موقع پر فارماسوٹیکل انڈسٹری کے مالکان کا کہنا تھا کہ انڈسٹری کی بحالی اور غریب عوام کو سستی اور معیاری ادویات کی فراہمی پر کوئی متفقہ کوشش اور حکمت عملی نہیں ہے ۔ انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ وزیراعظم پاکستان اس بحران کے حل کیلئے خود کوئی عملی قدم اٹھا ئینگے جیسا کہ انہوں نے ٹیکسٹائل کی صنعت کو بچانے کیلئے ذاتی دلچسپی لی تھی تاکہ غریب عوام کو سستی اور معیاری ادویات کی فراہمی کو ممکن بنایا جا سکے۔