لندن (نیوز ڈیسک ) وقت کے ساتھ جیسے جیسے ہم بڑے ہوتے جاتے ہیں ہم زندگی کی حقیقتوں سے ذیادہ بہتر انداز میں واقفیت حاصل کرنے لگتے ہیں۔ اسی طرح ہماری سوچنے کی صلاحیت اور اعمال میں بھی پختگی کی جھلک نمایاں ہونے لگتی ہے۔جب ہم دنیا کو ذیادہ قریب سے دیکھتے ہیں اسے پرکھنے کی کو شش کرتے ہیں تو بہت سی نئی اور اچھوتی چیزیں ہمارے سامنے آتی ہیں۔ کبھی کبھار یہ سچائی خاصی خوفناک تو کبھی انتہائی خوشگوار واقع ہوتی ہے۔لیکن چونکہ ہم انسان ہیں لہٰذا معاشرے کا حصہ ہونے کی بنا پر ہمیں اکثر اوقات منفی تجربات کا سامنا ہوتا ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب ہماری سوچ راسخ ہونے لگتی ہے تو ہمارے اعمال میں تبدیلی آنے لگتی ہے وہ باتیں جو ہمیں منفی حرکات پر اکساتی ہیں ہمارے لئے کوئی معنیٰ نہیں رکھیتیں۔ماہرین نفسیات کی رائے کے مطابق جب تک انسان پختہ سوچ کا مالک نہیں بن جاتا اس میں چھ بنیادی عادات جنھیں فطرت کہا جا سکتا ہے پائی جاتی ہیں لیکن وقت کے ساتھ ان کی شدت میں ناصرف کمی آتی ہے بلکہ وہ اپنی اہمیت ہی کھو دیتی ہیں۔ مگر اس کیلئے ضروری ہے کہ ہماری سوچ میں مثبت تبدیلی اور پختگی آئے۔ان چھ عادات میں پہلی عادت نفرت ہے۔جب ہم کسی سے نفرت کا اظہار کرتے ہیں تو سب سے پہلے ہمیں غصہ آتا ہے ،پس جب کوئی بات ہمارے مزاج کے خلاف رونما ہوتی ہے تو ہم مارے غصے کے پاگل ہو جاتے ہیں۔کچھ لوگ تو غصے کی شدت کے مارے لڑنے مرنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔ لیکن جب ہماری سوچ میں تبدیلی آتی تو اس قسم کی باتیں جو کبھی ہمارے نزدیک انتہائی ناگوار ہوتی تھیں کچھ خاص اہمیت نہیں رکھتیں اور ہم انھیں مسکرا کرٹال دیتے ہیں۔دوسری فطرت حسد ہے ،جب لوگ ایک دوسرے سے حسد کرتے ہیں تو بلا وجہ اپنا موازنہ کسی دوسرے انسان سے کرنے لگتے ہیں اور جب کسی عزیر یا دوست کو ترقی کرتا دیکھتے ہیں تو اندر ہی اندر کڑھ کر گھلتے رہتے ہیں لیکن جب سوچ میں تبدیلی آتی ہے تو وہی لوگ اپنی ہی دنیا میں مگن رہتے ہیں انھیں کسی کی ترقی سے حسد نہیں بلکہ خوشی حاصل ہوتی ہے۔تیسری فطرت ناکامی کا دھڑکا لگا رہنا ہے ، جب ہماری سوچ سطحی ہوتی ہے تو ہم ہر وقت ناکام ہونے سے خامخواہ خوفزدہ رہتے ہیں لیکن جب ہم بڑے ہو جاتے ہیں اور زندگی کے تجربات ہمیں مضبوط بنا دیتے ہیں تو یہ ناکامی کا دھڑکا درحقیقت ہماری طاقت بن جاتاہے۔چوتھی فطرت عدم تحفظ کا شکار ہونا ، عام طور پر جب سطحی سوچ کے مالک افراد کسی کے ساتھ کوئی رشتہ استوار کرتے ہیں تو ہمیشہ عدم تحفظ کا شکار رہتے ہیں انھیں ہر وقت یہ خوف گھیرے رکھتا ہے کہ جو شخص انھیں پسند ہے کہیں وہ کھو نہ جائے کہیں وہ انھیں چھوڑ نہ دے ،تاہم جب انسان بڑا ہوجاتا ہے اس کی سوچ کا انداز تبدیل ہوتا ہے تووہ اس قسم کی باتوں پر یقین نہیں رکھتا۔بلکہ اسے یقین ہوجاتا ہے کہ جو لوگ اس کے ساتھ مخلص ہیں وہ ہر حال میں اس کے ساتھ رہیں گے اور چھوڑ کر صرف وہ جائیں گے جو ان کے ساتھ کبھی مخلص تھے ہی نہیں۔پانچویں چیز ہے بےچینی ، ہم ذیادہ تر اپنے ماضی اور مستقبل کے بارے میں سوچتے اور کڑھتے رہنے کی عادت میں مبتلا رہتے ہیں لیکن سوچ میں تبدیلی کے ساتھ ہی ہم اپنے آج پر توجہ کرنے لگتے ہیں کیوں کہ ماضی واپس نہیں آسکتا اور مستقبل کی کوئی خبر نہیں۔چھٹی اور آخری فطرت جوسوچ میں روحانی تبدیلی کے ساتھ اختتام پزیر ہو جاتی ہے وہ ہے انتقام کا جذبہ ، جب کوئی ہمارے ساتھ کچھ ایسا کر دیتا ہے جو ناقابل معافی ہوتا ہے تو ہم بدلے کی آگ میں جلتے ہیں اور دشمن کو نیست و نابود کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ تاہم جب ہماری سوچ میچیور ہوجاتی ہے تو ہم بدلہ لینے کی بجائے معاف کرنے کے بارے میں غور کرنے لگتے ہیں۔ لیکن ان سب تبدیلیوں کے ہماری زندی میں رونما ہونے کیلئے ہماری سوچ میں مثبت تبدیلی اور پختگی کا آنا پہلی شرط ہے۔