اسلام آباد (نیوز ڈیسک) ایک بار بڑھے ہوئے وزن کو کم کرنا بے حد مشکل کام ہوتا ہے کیونکہ زبان کے چٹخارے رکنے نہیں پاتے ہیں اور دل کو کھانے کی جانب ہاتھ بڑھانے سے روکنا بے حد مشکل ہوتا ہے تاہم ماہرین نے ایک تھراپی ایجاد کی ہے جس کی مدد سے وزن میں مدد مل سکتی ہے۔ اس تھراپی کا تعلق جسم سے نہیں دل سے ہے۔ دراصل ماہرین کہتے ہیں کہ کھانے پینے سے زیادہ نقصان دہ عمل بنا سوچے سمجھے کھانا ہے۔ ٹی وی دیکھتے ہوئے، کتاب پڑھتے ہوئے یا پھر میوزک سے لطف اندوز ہوتے ہوئے ہم چپس، بسکٹ، نمکو اور اس جیسے دیگر سنیکس کی کس قدر بڑھ مقدار کھا جاتے ہیں کہ خود ہم کو بھی اس کا اندازہ نہیں ہوپاتا ہے۔ یاد رکھیئے کہ آپ کے دن بھر کے تین اضافی لقمے آپ کو 100اضافی کیلوریز دے سکتی ہیں اور ایک سال میں یہ اضافی کیلوریز آپ کے وزن میں10پونڈ تک اضافہ کرسکتی ہیں۔
دراصل کھانے پینے کا عمل بھی انسانی جسم کے دیگر خودکار عملیات کی مانند ہوتا ہے جس میں ہمارا جسم خود ہی ردعمل ظاہر کرنا شروع کردیتا ہے، مثال کے طور پر اگر آپ دکھ کے عالم میں کچھ کھاتی ہیں تو دماغ یہ فرض کرلے گا کہ پریشانی اور مسائل کی صورت میں کھانا چاہئے اور پھر ہر بار پریشانی کی صورت میں آپ کے اندر کچھ کھانے کی طلب ہوگی۔ اسی طرح دیگر مواقع پر بھی ہوتا ہے۔ اس لئے اگر آپ وزن کم کرنا چاہتی ہیں تو اس کیلئے اپنے دماغ کو سوچ سمجھ کے کھانا سکھائیں کہ کب کس وقت کھانے کی ضرورت ہوتی ہے اور کس وقت کھانا چاہئے۔علم نفسیات کی زبان میں اس تکنیک کو مائنڈ فل نیس ڈائیٹ کہتے ہیں۔ اس تکنیک میں دماغ کی یہ تربیت کی جاتی ہے کہ وہ موجودہ منظر میں رہے اور جسم سے ملنے والے سگنلز کو صحیح طور پر سمجھے۔ یہ تکنیک بہت آسان اور چھوٹی چھوٹی تھراپیز پر مشتمل ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر کچھ بھی منہ میں ڈالنے سے پہلے، خریدنے سے پہلے اور یہ فیصلہ کرنے سے پہلے کہ کیا آپ کو واقعی میں اس کی ضرورت ہے، دو تین گہرے گہرے سانس لیں۔سانس لینے کا عمل دماغ تک تازہ آکسیجن کو پہنچائے گا اور آپ کو یہ فیصلہ کرنے میں آسانی ہوگی کہ کیا واقعی آپ کو اس کی ضرورت ہے یعنی کہ آپ کو بھوک لگی ہے یا پھر یہ محض ذہنی دباو¿ ہے جس سے چھٹکارے کیلئے آپ کھانا چاہتی ہیں یا پھر محض بوریت ختم کرنے کیلئے آپ کھانا چاہتی ہیں۔
یاد رہے کہ علم نفسیات کی اس تکنیک کو مختلف تحقیقات سے ثابت کیا جاچکا ہے، اس لئے اسے محض توجہ حاصل کرنے کا ایک نیا ڈھنگ سمجھنا غلطی ہے۔اس تھراپی کی مدد سے ذہنی دباو¿ کو کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔ درد کی شدت کم ہوتی ہے، ڈپریشن کی شدت کو دبایا جاسکتا ہے اور سب سے بڑھ کے یہ قوت مدافعت کو بہتر بناتی ہے۔ اس حوالے سے ڈیوک یونیورسٹی سینٹر فار انٹیگریٹو میڈیسن میں کی گئی اس تحقیق میں ماہرین نے جب یہ عام افراد پر تجربہ کیا تو وہ لوگ جو کہ کھانے پینے کے معاملے میں شدید دباو¿ کا شکار رہتے تھے، ان کی خود پر جبر کی عادت بہتر ہوئی اس سے نہ صرف ان کا وزن کم ہوا بلکہ انہیں ذہنی سکون بھی نصیب ہوا۔
مائینڈ فل نیس تھراپی کا واحد نقصان یہ ہے کہ یہ ڈائٹنگ کے مروجہ طریقوں کی مانند فوری نتائج نہیں ظاہر کرتی ہے بلکہ اس پر عمل درآمد ایک سال سے ڈیڑھ برس کے بیچ تک جاری رکھنا پڑتا ہے تب کہیں جا کے جسم میں فرق محسوس ہونا شروع ہوتا ہے۔
وزن کم کرنا ہے تو مائنڈ فل نیس ڈائیٹ اپنائیں
9
اپریل 2015
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں