لندن۔۔۔۔۔۔گذشتہ ہفتے خیراتی ادارے آکسفیم کی اس رپورٹ نے خاصی ہلچل مچائی جس میں کہا گیا تھا کہ آئندہ برس دنیا کے ایک فیصد امرا کے پاس بقیہ 99 فیصد آبادی سے زیادہ دولت ہوگی۔
یہ رپورٹ کریڈٹ سوئیز نامی بینک کی جانب سے کروائی گئی تحقیق کی بنیاد پر تیار کی گئی جس کے مطابق اندازاً 2014 میں دنیا کی آبادی کی مجموعی دولت کا تخمینہ 2630 کھرب ڈالر لگایا گیا ہے۔تاہم یہ دولت ہے آمدن نہیں جس کا تعین اثاثوں کی مالیت سے قرضہ جات منہا کر کے کیا جاتا ہے۔یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ بل گیٹس، وارن بفٹ اور مارک زکربرگ جیسے لوگ ان ایک فیصد امرا میں سے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ ان کے علاوہ اس ایک فیصد آبادی میں کون شامل ہے۔کریڈٹ سوئیز کی رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا میں چار کروڑ 70 لاکھ ایسے افراد ہیں جن کی دولت سات لاکھ 98 ہزار ڈالر یا اس سے زیادہ ہے۔ان میں امیر ممالک میں رہنے والے بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں جو خود کو امیر نہیں سمجھتے لیکن وہ ایک گھر کے مالک ہیں یا پھرگھر کی خریداری کے لیے لیے گئے قرضے کا بڑا حصہ اتار چکے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ایسے افراد میں سے سب سے زیادہ ایک کروڑ 80 لاکھ افراد امریکہ میں رہتے ہیں جبکہ دوسرا نمبر جاپان کا ہے جہاں کے 40 لاکھ افراد کے اثاثے انھیں دنیا کے ایک فیصد امیروں میں شامل کرواتے ہیں۔فہرست میں تیسرے نمبر پر 35 لاکھ افراد کے ساتھ فرانس ہے جبکہ برطانیہ 29 لاکھ، جرمنی 28 لاکھ اور اٹلی 23 لاکھ افراد کے ساتھ بالترتیب چوتھے، پانچویں اور چھٹے نمبر پر ہیں۔
جرمنی یورپ کی سب سے بڑی معیشت ہے لیکن کریڈٹ سوئیز کے مطابق وہاں امیروں کی نسبتاً کم تعداد کی وجہ کم افراد کا مالکِ مکان ہونا ہے۔18 لاکھ امیروں کے ساتھ ساتواں نمبر آسٹریلیا کے پاس ہے جبکہ چین اور کینیڈا میں ایسے 16 لاکھ امیر آباد ہیں جن کا شمار ان ایک فیصد امرا میں ہوتا ہے۔سوئٹزرلینڈ میں آبادی کے تناسب سے ایک فیصد امیروں میں شامل افراد کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔
سوئٹزرلینڈ اس فہرست میں دسویں نمبر پر ہے لیکن یہاں آبادی کے تناسب سے ایک فیصد امیروں میں شامل افراد کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ ہر دس میں سے ایک سوئس شہری یعنی 80 لاکھ کی کل آبادی میں سے آٹھ لاکھ افراد کے اثاثوں کی مالیت آٹھ لاکھ ڈالر کے قریب ہے۔رپورٹ کے مطابق بقیہ 77 لاکھ امیر افراد دنیا کے دیگر 28 ممالک میں رہتے ہیں۔لیکن کریڈٹ سوئیز کی یہ رپورٹ مکمل تصویر نہیں دکھاتی۔اس رپورٹ میں دنیا کے ممالک میں مہنگائی کی شرح کا خیال نہیں رکھا گیا مثلاً مرکزی لندن میں جہاں آپ پانچ لاکھ پاؤنڈ میں صرف ایک کمرے کا فلیٹ خرید سکتے ہیں وہیں اس رقم میں کئی دوسرے ممالک میں عالیشان مکان خریدا جا سکتا ہے۔اس کے علاوہ رپورٹ میں آمدن کو مدِنظر نہیں رکھا گیا جس کی وجہ سے مغربی ممالک میں اچھی تنخواہ لینے والے بہت سے افراد کو اس لیے امیر نہیں مانا گیا کیونکہ انھیں یا تو بڑے قرضے ادا کرنے ہیں یا وہ اپنی تمام آمدن بہتر معیارِ زندگی پر خرچ کر رہے ہیں اور اثاثے نہیں بنا رہے۔جہاں ایک فیصد امیروں میں شمولیت کے لیے آپ کو انتہائی امیر ہونا ضروری نہیں وہیں اگر آپ دنیا کے دس فیصد امیروں میں شامل ہونا چاہتے ہیں تو اس کے لیے آپ کے پاس صرف 77 ہزار ڈالر کے اثاثے ہونے چاہییں۔اور جب بات دنیا کے پچاس فیصد امیروں میں شامل ہونے کی ہو تو یہ رقم کم ہو کر صرف تین ہزار چھ سو پچاس ڈالر رہ جاتی ہے۔
دنیا کی امیر ترین آبادی کہا رہتی ہے کلک کر کے ہوشربا رپورٹ پڑھیں
26
جنوری 2015
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں