انقرہ ۔۔۔۔۔۔ترک زبان میں ایک پرانی کہاوت ہے کہ ’ترک کا کوئی دوست نہیں ہوتا سوائے ترک کے۔‘رجب طیب اردگان کی قیادت میں ترکی تیزی سے تنہائی کا شکار ہو رہا ہے اور یہ کہاوت سچ ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ ان کی وزارتِ عظمیٰ کے گیارہ سالہ دور میں ترکی کو عالمی سطح پر نمایاں مقام حاصل ہوا۔ اس نے یورپی یونین کی رکنیت حاصل کرنے کے لیے مذاکرات شروع کیے۔ ترکی نے دنیا بھر اور خاص طور پر افریقہ میں اپنے سفیروں کی تعداد میں اضافہ کیا۔بی بی سی کے مطابقترکی کے سب سے بڑے شہر استنبول کا ہوائی اڈہ دنیا بھر کے بڑے ہوائی اڈوں میں شمار ہوتا ہے اور ترکی کی فضائی کمپنی کی پروازیں کسی بھی دوسرے ملک کی فضائی کمپنی سے زیادہ ملکوں کو جاتی ہیں۔لیکن حالیہ مہینوں میں غالباً گذشتہ دو برس سے کچھ بگاڑ ہو گیا ہے۔ عالمی رہنما اب بھی ترکی آ تے ہیں اور امریکی نائب صدر جو بائیڈن اگلے ہفتے ترکی آ رہے ہیں لیکن اب واضح طور پر ترک کے کم ہی دوست ہیں۔عالمی رہنما اب بھی ترکی آ تے ہیں اور امریکی نائب صدر جو بائیڈن اگلے ہفتے ترکی آ رہے ہیں لیکن اب واضح طور پر ترک کے کم ہی دوست ہیں۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں گذشتہ ماہ جب سلامتی کونسل کے غیر مستقل رکن منتخب کرنے کے ووٹنگ کی گئی تو ترکی پراعتماد تھا کہ وہ آسانی سے یہ سیٹ حاصل کر لے گا۔ لیکن یہ سپین اور نیوزی لینڈ سے ہار گیا۔ یہ ہار اگست میں صدر منتخب ہونے والے اردگان کے لیے بڑی شرمندگی کی بات ثابت ہوئی۔صدر اردگان کی قیادت میں ترکی معاشی طور پر انتہائی پسماندہ ملک سے دنیا کی سترہویں بڑی معیشت بن کر ابھرا۔اس کا آغاز عرب سپرنگ کے ساتھ ہوا۔ ترکی نے غلط فیصلے کیے، مصر میں اس نے اخوان المسلیمین کی حمایت کی اور شام میں صدر اسد کے جلد اقتدار سے علیحدہ ہو جانے پر انحصار کیا۔ اب قاہرہ میں اس کا کوئی سفیر نہیں ہے اور اردگان اپنے مصری ہم منصب عبدالفتح السیسی کو ایک غیر منتخب آمر کہتے ہیں۔
ترکی شام میں جاری جنگ میں الجھتا چلا گیا اور جہادی عناصر کو اپنی سرحدوں سے شام میں داخل ہونے کی اجازت دینے پر اس کو تنقید کا سامنا ہے۔
عراق ، ایران اور سعودی عرب سے اس کے تعلقات کمزور ہوئے ہیں۔ سابق دفاعی شراکت دار اسرائیل سے اس کے تعلقات تار تار ہیں۔ تل ابیب میں اب ترکی کا کوئی سفیر نہیں ہے۔
اردگان غزا میں اسرائیل بمباری کو ’نسل کشی‘ سے تعبیر کرتے ہیں جو ہولوکاسٹ کی یاد تازہ کرتی ہے۔
ترکی کے تعلقات امریکہ جیسے دیرینہ حلیف سے بھی کمزور پڑے رہے ہیں۔ واشنگٹن نے جب دولت اسلامیہ کے خلاف اتحاد بنایا تو ترکی اس میں شامل نہیں ہوا اور اس نے امریکہ کو اپنے ہوائی اڈوں کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی۔ ترکی کی شرط تھی کہ صدر اسد کی فوج کو بھی نشانہ بنایا جائے اور شام میں نو فلائی زون نافذ کیا جائے۔
ترکی کے سب سے بڑے شہر استنبول کا ہوائی اڈہ دنیا بھر کے بڑے ہوائی اڈوں میں شمار ہوتا ہے اور ترکی کی فضائی کمپنی کی پروازیں کسی بھی دوسرے ملک کی فضائی کمپنی سے زیادہ ملکوں کو جاتی ہیں
گذشتہ ماہ اردگان کی طرف سے صدر اوباما کو کرد جنگجوؤں کو اسلح فراہم کرنے کے بارے میں خبردار کرنے کے دو گھنٹے بعد امریکی فوج نے کرد علاقوں میں ہتھیار گرائے۔ اس سے پہلے شاید ہی اختلاف کا اتنا واضح اشارہ ملا ہو۔
ایک تجزیہ نگار سیان الگان کے مطابق حکومت کو اس بات کا ادراک ہے کہ سفارت محاذ پر اس کو کس قدر پسپائی کا سامنا ہے۔ لیکن انقرہ کا کہنا ہے کہ ترکی کو اس لیے تنہائی کا سامنا ہے کیونکہ یہ دنیا میں واحد ملک ہے جس کی خارجہ پالیسی اخلاقی اقدار اور اصولوں پر مبنی ہے۔
اردگان کے حمائتی اس بات پر یقین کرتے ہیں اور ان کے لیے یہ ہی بات اہمیت رکھتی ہے۔
رجب طیب اردگان کے لیے یہ بات ہی تحریک کا باعث ہے۔ انتخابات میں ان کی بے مثال کامیابی نے ان کے اس یقین کو کہ ان کی پالیسیاں درست ہیں اس مستحکم کر دیا ہے۔
جون 2013 میں استبول میں غازی پارک میں تعمیراتی منصوبے کی وجہ سے شروع ہونے والی عوامی احتجاج بھی ان کو اپنا راستہ تبدیل کرنے پر مجبور نہ کر سکا۔ ان کی مشیر انھیں مذاکرات کا مشورہ دے رہ تھے لیکن انھوں نے مظاہرین کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا۔
ترکی کی تنہائی صرف اس کے لیے ہی نہیں بلکہ مغرب کے لیے بھی ایک مسئلہ ہے۔ اگر مغرب کے اس خطے میں کوئی دفاعی اہداف ہیں تو اس کے لیے ترکی سے بہتر کوئی اتحادی نہیں ہو گا
گذشتہ برس فون پر ان کی نجی گفتگو کی ریکارڈنگ سامنے آئی تھی۔ جس کے بعد ان پر ان کے قریبی رفقا پر بدعنوانی کے الزامات لگے تھے۔ لیکن وہ اس بحران سے بھی نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔
انھوں نے جواباً ہزاروں ججوں اور پولیس اہلکاروں کو برطرف کر دیا اور ملک میں سوشل میڈیا پر پابندی لگا دی۔
سیان الگن کے مطابق غازی پارک کے مظاہروں اور بدعنوانی کے الزامات کے بعد بین الاقوامی سطح پر اردگان کے بارے میں رائے تبدیل ہونا شروع ہو گئی۔
ترکی کی تنہائی صرف اس کے لیے ہی نہیں بلکہ مغرب کے لیے بھی ایک مسئلہ ہے۔ اگر مغرب کے اس خطے میں کوئی دفاعی اہداف ہیں تو اس کے لیے ترکی سے بہتر کوئی اتحادی نہیں ہو گا۔
اردگان کے حامیوں کی اکثریت مذہبی قدامت پسندوں پر مشتمل ہے اور انھیں اپنے صدر کی طرف سے سکولوں، یونیورسٹیوں اور دفاتر میں حجاب پہننے کی حوصلہ افزائی پر آزادی ملنے کا احساس ہوتا ہے
لیکن ترکی کا اثر و رسوخ کم ہوا ہے جس سے مغرب کو نقصان ہے۔ اردگان کے نذیک جمہوری جواز بیلٹ بکس سے ہی حاصل ہوتا ہے۔ لیکن لوگوں کو ترکی کی جمہوریت سے اور بھی توقعات ہیں، ایک آزاد پریس، آزاد عدلیہ اور قانون کی حکمرانی۔
حالیہ ہفتوں میں ایک ہزار کمروں پر مشتمل اکسٹھ کروڑ ڈالر سے نئے صدارتی محل کی تعمیراور مسلمانوں کے امریکہ دریافت کرنے کے بیان پر غیر ملکی اخبار نویسوں کو آڑے ہاتھوں لینے کی وجہ ان پر تنقید میں شدت آئی ہے۔ اور ایک بے سمت حکومت کے تاثر کو تقویت ملی ہے۔ اس کے باوجود اپنے حامیوں میں مقبول ہیں۔ جب باون فیصد لوگوں نے انھیں منتخب کیا تھا وہ ٹوئٹر پر پابندی، بدعنوانی کے الزامات کی پرواہ نہیں کرتے ان کے خیال میں بدعنوانی کے الزامات ہر سیاسی رہنما کا پیچھا کرتے ہیں۔
ان کے لیے معاشی طور پر انتہائی پسماندہ ملک سے دنیا کی سترہویں بڑی معیشت بننا سب سے اہم بات ہے، نئے ہپستال، نئی سڑکیں اور سکولوں کی تعمیر۔
ان کے حامیوں کی اکثریت مذہبی قدامت پسندوں پر مشتمل ہے اور انھیں اپنے صدر کی طرف سے سکولوں، یونیورسٹیوں اور دفاتر میں حجاب پہننے کی حوصلہ افزائی پر آزادی ملنے کا احساس ہوتا ہے۔ ملک میں سیکولر حکومت کے اسی سالہ دور میں حجاب پر پابندی عائد تھی۔ وہ اپنے صدر کو ایک مضبوط اور جرت مند رہنما کو دیکھتے ہیں جو مغرب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکتا ہے۔
یورپی یونین کے ساتھ ابتدائی گرمجوشی آزادیِ رائے کی وجہ سے ماند پڑ گئی ہے
اردگان کے مشیر ابراہیم کیلن کے مطابق اردگان نے ترکی کو ایک سیاسی اور معاشی طاقت بنایا ہے جس میں متوسط طبقے کو بااختیار کیا گیا ہے۔ ان کے مطابق اردگان نے کردستان کے مسئلہ کو حل کرنے کے لیے نیا سلسلہ شروع کیا ہے، مذہبی اقلیتوں کے حقوق کا احترام کرنے کے لیے کئی ایک اقدامات اٹھائے ہیں اور فوجی کی حکمیت کے خلاف سخت موقف اختیار کیا ہے۔ لیکن ان کی کامیابیوں کو ان کے سخت گیر رویے کی وجہ سے فراموش کیا جا رہا ہے۔
اردگان کے قریبی اہلکاروں کا کہنا ہے کہ وہ نجی محفلوں میں انتہائی حلیم طبع شخص ہیں۔ ’عوامی زندگی میں مسابقت ہوتی ہے، سمجھوتے کمزوری کی نشانی سمجھے جاتے ہیں۔ قدرتی طور پر وہ پہلے مقابلے پر اتر آتے ہیں لیکن بعد میں انھیں احساس ہوتا ہے کہ مختلف طریقہ اختیار کیا جانا چاہیے تھا۔‘
یورپی یونین کے ساتھ ابتدائی گرمجوشی آزادیِ رائے کی وجہ سے ماند پڑ گئی ہے۔ ترکی کی رکنیت حاصل کرنے کی مہم رک گئی ہے اور یورپی ملکوں میں بھی یونین کو اور زیادہ وسعت دینے کی خواہش کمزور ہو گئی۔ اسے ترکی کا احساس تنہائی بڑھ گیا ہے۔
حکام اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ ترکی کی طرف گرمجوشی کے جذبات ماند ہو گئے ہیں اور محتاط رویہ اختیار کر لیا گیا ہے۔حکام کا کہنا ہے کہ ’وہ چاہتے ہیں کہ ترقی کا سفر جاری ہے اور ہم زیادہ با معنی تعلقات چاہتے ہیں۔ ترکی کی اہمیت کا ابھی احساس ہے۔‘
یہی وہ چیز ہے جس سے اردگان کو بین الاقوامی تعلقات میں اعتماد حاصل ہوتا ہے۔ ترکی اب بھی انتہائی اہم ملک ہے۔ یہ مغرب کے لیے مشرق وسطی تک جانے کا راستہ ہے اور ایک ترقی کرتی ہوئی معیشت ہے جسے کوئی نظر انداز نہیں کر سکتا۔
یورپی حکام کا کہنا ہے کہ اردگان کی ذاتی تمنا ہے کہ وہ عظیم ترین ترک رہنما بنیں۔ ’اگر ان کے بارے میں ہمارے جذبات ٹھنڈے بھی پڑ جائیں اس کے باوجود ہمیں ان ہی سے معاملات طے کرنا ہوں گے۔‘
رجب طیب اردگان ایک نئے ترکی کی تعمیر کر رہے ہیں۔ دوسرے کے خیال میں یہ ایک منقسم اور غیر مطمئن ترک ہے جس کی ملک کے اندر اور باہر دوستیاں ختم ہو رہی ہیں۔