روس نے ایران میں جوہری توانائی کے حصول کے لیے آٹھ نئے جوہری ری ایکٹرز تعمیر کرنے کا معاہدہ کیا ہے۔منگل کو دونوں ممالک کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے تحت روس کی جوہری توانائی کی سرکاری کمپنی روساٹم یہ جوہری ری ایکٹرز تعمیر کرے گی۔ بی بی سی کے مطابق آٹھ میں سے چار جوہری ری ایکٹرز ایران میں روس کی پہلے سے تعمیر کردہ جوہری تنصبات جبکہ چار نئے مقامات پر تعمیر کیے جائیں گے۔اس میں دو ری ایکٹرز بوشہر میں واقع جوہری مرکز میں تعمیر کیے جائیں گے۔روساٹم کے مطابق نئے جوہری ری ایکٹرز کی تعمیر اور جوہری ایندھن کی سپلائی کا منصوبہ بین الاقوامی جوہری ایجنسی آئی اے ای اے کی نگرانی میں کام کرے گا اور اس میں ایسا طریق? کار وضع کیا جائے گا جس کے تحت جوہری ہتھیار بنانا ممکن نہ ہو سکے۔روس کی سرکاری خبر رساں ایجنسی نے ایران کے جوہری پروگرام کے سربراہ علی اکبر صالحی کے حوالے سے بتایا ہے کہ’ نئے جوہری ری ایکٹرز کی تعمیر کا معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کا ایک موڑ ہے۔‘روس اور ایران کے درمیان جوہری معاہدہ ایک ایسے وقت کیا گیا ہے جب چند روز بعد آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان جوہری پروگرام پر حتمی معاہدے کے درمیان حائل رکاوٹیں دور کرنے کے لیے مذاکرات کا آخری دور منعقد ہونا ہے۔گذشتہ اتوار کو عمان کے دارالحکومت مسقط میں ہونے والے ان مذاکرات نتیجہ رہے تھے بعض مغربی ممالک کے حکام نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان معاہدے کے نتیجے میں ایران کی جوہری بجلی گھروں کے لیے خود ایندھن تیار کرنے کی حوصلہ افزائی ہو گی اور یہ معاہدہ ویانا میں منعقد ہونے والے مذاکرات پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔گذشتہ اتوار کو عمان کے دارالحکومت مسقط میں جوہری پروگرام پر معاہدے کے حوالے سے ہونے والے مذاکرات بے نتیجہ رہے تھے۔ایران اور عالمی دنیا کے مابین طے پانے والے عبوری معاہدہ 24 نومبر کوختم ہو رہا ہے۔ ان مذاکرت میں یورینیم کی افزودگی اور پابندیوں میں نرمی پر اختلاف ختم کرنے کے لیے راہ ہموار کی جا رہی ہے۔گذشتہ سال ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے مابین جوہری پروگرام پر عبوری معاہدہ ہوا تھا جس کے بعد ایران کے اقتصادی پابندیوں میں نرمی کی گئی تھی۔اقوام متحدہ کے جوہری توانائی کے نگران ادارے آئی اے ای اے کا کہنا ہے کہ حسن روحانی کے صدر بننے کے بعد ایران اْن کے ساتھ مکمل تعاون کا وعدہ کیا تھا۔آئی اے ای کا کہنا ہے کہ ایران اس بات پر متفق تھا کہ وہ درجن بھر مشتبہ تنصیبات میں سے دو کے بارے میں مکمل معلومات رواں سال اگست تک فراہم کرے گا لیکن ایران نے ابھی تک معلومات نہیں دی ہیں۔ایران کے عالمی طاقت کے مابین ہونے والے مذاکرات میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ ایران کس حد تک یورینیم افزودہ کر سکتا ہے اور کب تک بین الااقوامی پابندیاں ختم ہوں۔ ایران کا اصرار ہے کہ اْس کا جوہری پروگرام پر امن مقاصد کے لیے ہے۔روس اس سے پہلے بھی ایران میں جوہری ری ایکٹر تعمیر کر چکا ہے۔ ایران کے شہر بوشہر میں یہ ایٹمی پلانٹ 1974 میں جرمنی کے تعاون سے شروع کیا گیا تھا لیکن 1979 میں اسلامی انقلاب کے بعد اس پر کام روک دیا گیا تھا۔ بعد میں1992 میں روس کے تعاون سے اس پلانٹ پر دوبارہ کام کا آغاز کیا گیا اور2010 میں مکمل ہوا۔