معروف صحافی و کالم نگار امتیاز عالم اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔کلثوم، کلثوم (میں ہوں تمہارا) ’’باؤجی‘‘، میاں نواز شریف نے آخری بار عالمِ بیہوشی میں اپنی شریکِ حیات کو پکارا، پل بھر کو اُس نے آنکھیں کھولیں بھی۔ شاید الوداع کہنے کو، مگر کچھ کہہ نہ پائیں۔ اور یوں سابق وزیراعظم کلثوم بی بی کی لاڈلی مریم کو ساتھ لیے اڈیالہ جیل جانے کو لاہور کے لیے روانہ ہو گئے۔ اس منظر کی ویڈیو سوشل میڈیا پہ
اب ایسی وائرل ہوئی کہ ملک کے طول و عرض میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی، اور لاہور کی بیٹی کو آخری سلامِ عقیدت پیش کرنے کو سارا شہر اُمڈ آیا۔ سوچتا ہوں اگر یہ جنازہ 25؍ جولائی سے پہلے لاہور آتا تو جانے کیا سیاسی طوفان بپا ہو جاتا۔ زندگی کے لمبے ساتھ کے یوں ٹوٹنے پر جانے میاں نواز شریف اور کلثوم نواز کے دل پہ کیا گزری ہوگی۔ تصور ممکن نہیں۔ ناموافق سیاست کے ظالم تقاضے، انسان کے انتہائی جذباتی رشتوں پہ کیسے حاوی ہو جاتے ہیں اور پھر ساری زندگی کسک بن کر کچوکے مارتے رہتے ہیں۔ مجھے یاد ہے جب کسی انقلابی تقاضے کی پیروی میں میں اپنی بہت ہی پیاری ہستی دادی امراؤ کو بسترِ مرگ پہ چھوڑ کر چلا گیا تھا اور وہ میری بے وفائی پہ آنسو بہاتی رخصت ہو گئی تھیں۔ انقلابی تقاضا تو آج تک پورا نہیں ہوا، لیکن اپنی پیاری اماں سے کی گئی بے رُخی پہ میں آج تک خود کو معاف نہیں کر سکا۔ اپنے کسی بھی پیارے کی زندگی کے آخری ایام میں فرائضِ اُلفت و عیادت کی قربانی سے بڑی قربانی کوئی کیا ہو سکتی ہے۔ ہارلے اسٹریٹ کے آئی سی یو وارڈ میں کئی ماہ سے موت سے لڑتی کلثوم آنکھیں کھولتی بھی کیوں، کہ اُس کے ’’باؤ جی‘‘ کو تاریخ کا بلاوا آ گیا تھا۔ لیکن تاریخ بھی غُچہ دے گئی اور لاہور ایئرپورٹ کے گرد و نواح میں متوالوں کے بے ہنگم نعرے صدا بہ صحرا ہوئے۔ اور اگر اسلام آباد ہائیکورٹ نے یہ مان کر کہ ’’سزا مفروضوں پہ دی گئی‘‘، باپ بیٹی کو
ضمانت پہ رہا کر دیا اور بعد ازاں نواز شریف اور مریم کی اپیل بھی قبول کر لی تو انصاف کے ہاتھوں انصاف کے ایوانوں اور ووٹ کی تذلیل کا کیا بنے گا؟ایک صنعتکار کا چھیل چھبیلا بیٹا جو اپنی اسپورٹس کار میں بیٹھا گلوکار محمد رفیع کے گیت گاتا پھرتا تھا، اسے بھائی بھی تو رستم زماں گاما پہلوان کی نواسی جو مصری شاہ کے ایک مشہور ڈاکٹر کی خوبرو اور سخن ور بیٹی جو ٹھیٹھ کشمیری پنجابن ہونے کے باوجود اُردو ادب،
شعر و شاعری اور نقد و نظر کی شوقین تھی۔ پھر دو دل ایسے ملے کہ کبھی جدا نہ ہوئے۔ کلثوم کو ’’باؤ جی‘‘ کیا مل گیا، ساری کائنات مل گئی۔ اور ’’باؤ جی‘‘ کو کیا سوجھی کہ اچھا بھلا کاروباری آدمی سیاست میں پڑ گیا۔ بھٹو صاحب کے ہاتھوں اپنی اتفاق فاؤنڈریز گنوا کر، میاں شریف کا خاندان بہت زخم خوردہ تھا۔ میاں شریف دبئی چلے گئے اور بے نامی کاروبار میں لگ گئے کہ باہر کاروبار کرنا سزا کا موجب تھا اور ویسے بھی
دبئی میں ابھی خاک اُڑتی تھی۔ جب جنرل ضیا الحق کا مارشل لا لگا اور بھٹو صاحب کو پھانسی دی گئی تو اُس وقت بھی ایک بیوی اور ایک بیٹی میدان میں اُتری تھیں، جنہوں نے جمہوری مزاحمت کی بے مثال تاریخ رقم کی تھی۔ مجھے شریف خاندان کا سیاسی ماضی کبھی بھی بھلا نہیں لگا کہ یہ جنرل ضیا الحق کے غیرسیاسی انتخابات کے چھکڑے پہ سوار ہو کر جمہوری لہر کے خلاف کھڑے ہو گئے تھے۔ 1990ء میں
محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کو ختم کروانے اور جنرل اسلم بیگ اور جنرل درّانی کے گھڑے ہوئے اسلامی جمہوری اتحاد میں شامل ہو کر میاں نواز شریف پہلی بار وزیراعظم تو بن گئے لیکن اُن شرائط پہ پورا نہ اُترے جن کا تقاضا تھا۔ پھر کیا تھا وزیراعظم نے وزیراعظم بننے کی کوشش کی تو جھگڑا بیوروکریٹ اعظم غلام اسحاق خان سے ہو گیا۔ یہ وہ مرحلہ تھا جب نواز شریف نے اپنے تئیں ایک عوامی لیڈر بننے کا
آغاز اپنی مشہور تقریر سے کرتے ہوئے وزیراعظم ہاؤس کو خیرباد کہا۔ اور وہ عوام کے ہو گئے۔ لیکن عوام کا ہونا گھاٹے کا سودا ہے۔ پنجابی بورژوازی کے نمائندے نواز شریف نے طے کیا کہ وہ محض ایک طبقہ نہیں (Class by itself) ایک آزاد بورژوا طبقے کے لیے کھڑا ہوگا ۔ جدید نوآبادیاتی ڈھانچے پہ قائم پنجابی بالادستی کے لیے نواز شریف ایک بڑا دردِ سر ثابت ہوا۔ اگر بے نظیر بھٹو اور نواز شریف باہم دست و گریباں نہ ہوتے تو
پاکستان کی جمہوری کایا پلٹ کب کی ہو چکی ہوتی۔یہ سب منظر خاتونِ خانہ کلثوم نہایت نزدیک سے دیکھا کیے۔ نواز شریف کی پہلی برطرفی انھیں یہ سکھلا گئی کہ بیساکھیوں کے سہارے اقتدارِ اعلیٰ ملنے والا نہیں۔ اصل امتحان اُس وقت شروع ہوا جب اپنی دوسری حکومت میں نواز شریف کو کمانڈو چیف جنرل مشرف سے واسطہ پڑا۔ جب وزیراعظم واجپائی کی لاہور یاترا ہو رہی تھی تو کارگل آپریشن شروع ہو چکا تھا۔
اور یہیں سے دوسری بار منتخب وزیراعظم کی ابتلا کا دور اور کلثوم نواز کی سیاست کا آغاز ہوا۔ وزیراعظم تو نئے آرمی چیف کو تمغے لگاتے گرفتار ہو گئے اور کلثوم نواز نے خانہ داری سے چھٹی لی اور اپنے دوپٹے کو پرچم میں بدل دیا۔ وہ تنِ تنہا میدان میں اُتریں کہ یا تو مرد لوگ گرفتار تھے یا پھر گھروں میں دُبک کر بیٹھ رہے تھے۔ مجھے کلثوم بی بی کی سیاسی قلب ماہیت کا اندازہ تب ہوا جب ہمیں دی نیوز کے دفتر میں
یہ خبر ملی کی اُن کی گاڑی کو کرین سے اُٹھا کر کہیں جی اور آر میں ہوا میں معلق کر دیا گیا تھا اور گاما پہلوان کی نواسی نے گھنٹوں پولیس کو ناکوں چنے چبوا دیے۔ بس پھر کیا تھا، اب ہر طرف کلثوم نواز بھاگتی دوڑتی نظر آئیں۔ اور وہ تین برس تک مسلم لیگ کی بلاشرکتِ غیرے قوتِ متحرکہ بنی رہیں۔ اُن کا ذاتی دُکھ، جمہوری مزاحمت میں ڈھل گیا۔ قید میں ’’باؤجی‘‘ کو پتہ چلا کہ اُن کی کلثوم کے کون کون سے گُن تھے
جو انہیں جیل جا کر معلوم پڑے۔ اُنہیں اپنے ’’باؤ جی‘‘ کے لیے اُن کی تیسری بار وزارتِ عظمیٰ سے برطرفی کے بعد پھر سے میدان میں اُترنا تھا جب اُنہیں نواز شریف کی خالی نشست پہ میدان میں اُتارا گیا۔ لیکن اب وہ جسمانی طور پر بے بس ہو چکی تھیں اور اُنہیں پرچم اپنی ہونہار اور بہادر بیٹی کے حوالے کرنا پڑا۔ جس طرح کلثوم نواز نے 1999-2002ء کے سالوں میں سب کو حیران کر دیا تھا، اُسی طرح مریم نواز نے بھی
اپنی صلاحیتوں سے سب کو حیران کر دیا۔ اگر پہلے ماں اپنے خاوند کے لیے کھڑی ہوئی تھی تو اب بیٹی باپ کے ساتھ جیل کی عقوبتیں برداشت کر رہی ہے۔ جانے ہم مرد لوگ اپنی گھریلو عورتوں کو اتنا کمزور کیوں سمجھتے ہیں؟ ہم مردوں سے کیے گئے ظلم کے خلاف صبح شام عورتوں بچوں کے مظاہرے دیکھتے ہیں، پھر بھی اُنہیں کمزور اور آدھا سمجھتے ہیں۔ نواز شریف کے تمام امتحانوں میں کلثوم نواز سرخرو ہوئی تھیں۔
اور اُنہوں نے بہتر جانا تھا کہ لڑکوں کو سیاست سے باہر رکھا جائے، جس طرح میاں شریف نے نواز شریف کو کاروبار سے علیحدہ کر دیا تھا۔ لیکن پھر بھی پانامہ نے پیچھا نہ چھوڑا۔ آج جب بی بی کلثوم کے قُل پڑھے جا رہے ہوں گے تو میں اُن کی لحد پر ایک پھول لے کر جاؤں گا اور اُن سے کہوں گا کہ کلثوم، کلثوم… فکر مت کرو، تمہارے باؤ جی کے ساتھ اب تمہاری جگہ تمہاری اپنی مریم کھڑی ہے۔ اور آواز آئے گی کہ ’’باؤ جی، باؤ جی! میں ہوں آپ کی کلثوم اور میری بیٹی کا خیال رکھنا!‘‘ انا للہ و انا الیہ راجعون!