اسلام آباد (نیوز ڈیسک) شہر میں ایک شہری کے بینک اکاؤنٹ سے 85 لاکھ روپے نکالنے کا بڑا مالیاتی فراڈ سامنے آیا ہے، جس میں متاثرہ شخص کے نام پر غیر قانونی طور پر ڈوپلیکیٹ سم نکلوائی گئی۔تفصیلات کے مطابق شہری سنی کمار کی جانب سے نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی (NCCIA) کو شکایت درج کروائی گئی تھی، جس پر ادارے نے واقعے کی تفتیش شروع کی۔شکایت کنندہ کے مطابق 29 ستمبر 2025 کو شام کے وقت اس کا سم اچانک غیر فعال ہوگیا۔ اگلے روز جب وہ کراچی میں موجود موبائل کمپنی کے بزنس سینٹر گیا تو اسے بتایا گیا کہ اس کے نام پر موجود سم کی ڈوپلیکیٹ سم حیدرآباد سے نکلوائی گئی ہے — وہ بھی بغیر کسی بائیو میٹرک تصدیق کے۔
یہ سم نمبر متاثرہ شہری کے بینک اکاؤنٹ سے منسلک تھا۔سنی کمار کے مطابق جب اس نے اپنا اکاؤنٹ چیک کیا تو انکشاف ہوا کہ ایک ہی رات میں 100 سے زائد ٹرانزیکشنز کے ذریعے 85 لاکھ روپے مختلف اکاؤنٹس میں منتقل کر دیے گئے۔این سی سی آئی اے حکام کے مطابق متاثرہ شہری نے تمام شواہد بھی فراہم کیے، جس کے بعد متعلقہ بینک اور موبائل کمپنی سے ریکارڈ طلب کیا گیا، مگر دونوں اداروں کی جانب سے مطلوبہ معلومات بروقت فراہم نہیں کی گئیں۔تحقیقات کے دوران بینک برانچ منیجر کو طلب کیا گیا، تاہم ان کی جگہ ریلیشن شپ منیجر پیش ہوئیں جنہوں نے صرف بینک اسٹیٹمنٹ اور جزوی ٹرانزیکشن ریکارڈ جمع کروایا۔ حکام نے انہیں مزید مکمل دستاویزات پیش کرنے کی ہدایت دی، لیکن مطلوبہ ریکارڈ بعد ازاں بھی فراہم نہیں کیا گیا۔اسی طرح سیلولر کمپنی کے ہیڈ آف کمپلائنس سے بھی ریکارڈ مانگا گیا، مگر کئی یاد دہانیوں کے باوجود ادھورا اور غیر تسلی بخش جواب دیا گیا۔ بعد ازاں کمپنی کے منیجر فرنچائز سروسز اینڈ گورننس اور سینئر ایگزیکٹو ریگولیٹری افیئرز پیش ہوئے، جنہوں نے کچھ جزوی معلومات فراہم کیں۔تحقیقات کے دوران حکام نے کمپنی نمائندگان سے سم کے اجرا، حفاظتی اقدامات، احتساب کے نظام، ڈیوائس لوکیشن ٹیگنگ اور بائیو میٹرک ایس او پیز سے متعلق 48 سوالات کیے، تاہم انہوں نے جوابات دینے سے انکار کیا اور تحریری جواب جمع کرانے کے لیے مہلت مانگی۔
حکام کے مطابق ٹرانزیکشنز کے انداز سے واضح ہوتا ہے کہ یہ منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا سائبر فنانشل فراڈ ہے۔ اس میں سم دوبارہ جاری کرنے میں مجرمانہ غفلت کے باعث مجرموں کو متاثرہ شہری کے ڈیجیٹل بینک اکاؤنٹ تک غیر مجاز رسائی حاصل ہوگئی۔مزید کہا گیا کہ بینک کی جانب سے اینٹی فراڈ نظام، او ٹی پی ویری فکیشن اور بائیو میٹرک سکیورٹی کے باوجود ریڈ فلیگ الرٹس کو نظر انداز کیا گیا اور چند گھنٹوں میں متعدد ہائی ویلیو ٹرانزیکشنز کی اجازت دے دی گئی۔تحقیقات جاری ہیں جبکہ حکام کا کہنا ہے کہ واقعہ ڈیجیٹل بینکنگ سکیورٹی میں خطرناک خامیوں کی نشاندہی کرتا ہے، جنہیں مستقبل میں دور کرنا ناگزیر ہے۔