کراچی(این این آئی)معاشی ماہرین کے مطابق دسمبر2017 کے بعد سے اب تک ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں تقریبا50فیصدکم ہو چکی ہے، جس کی وجہ سے ملک میں مہنگائی میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ اسی باعث موجودہ حکومت شدید دبائو کا شکار بھی ہے۔پاکستانی روپے کی قدر میں حالیہ گراوٹ سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے تجزیہ کار خرم شہزاد نے بتایاکہ آئی ایم ایف کی ایک شرط یہ ہے کہ
کرنسی کو روکا یا اسے مصنوعی طور پر فریز نہیں کیا جا ئے گا۔ پہلے زر مبادلہ کو استعمال کرتے ہوئے پاکستانی کرنسی کو مینج کیا جاتا تھا۔ آئی ایم ایف کے مطابق زرمبادلہ کو ایسے استعمال نہ کیا جائے تاکہ روپے کی درست قدر کا پتہ چلے۔ انہوں نے بتایاکہ پاکستان کی در آمدات اور بر آمدات میں بہت زیادہ فرق اب بھی قائم ہے، پاکستانی مارکیٹ میں ڈالر کی سپلائی کم ہے اور درآمدات کی ادائیگیاں کرنے کے باعث ڈالر کی مانگ بہت زیادہ ہے جو کہ ڈالر کی قدر میں اضافے کا باعث بن رہی ہے، جون میں قرضہ جات کی ادائیگیاں بھی کی جاتی ہیں جس کے باعث ڈالر کی مانگ میں اضافہ ہو جاتا ہے۔خرم شہزاد نے امید ظاہر کی جولائی میں پاکستانی روپے کی قدر مستحکم ہو سکتی ہے۔ انہوں نے بتایاکہ آئی ایم ایف کا وفد تین جولائی کو پاکستان آ رہا ہے اور ایک سے دو ہفتے میں پاکستان کو قریبا پچاس کروڑ ڈالر مل سکتے ہیں۔ ایشین ڈویلپمنٹ بینک اور عالمی بینک سے بھی ایک سے دو ارب ڈالر مل سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ قطر کی حکومت نے بھی سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی طرح پاکستان کو کیش سپورٹ فراہم کرنے کا کہا ہے۔خرم شہزاد نے بتایا کہ پاکستان ہر ماہ قریباً سوا ارب ڈالر کا تیل خریدتا ہے۔ یکم جولائی سے قریبا ماہانہ 27کروڑ ڈالر کی مالیت کا تیل سعودی عرب فراہم کرے گا اور پاکستان کو اس کا معاوضہ فوری طور پر نہیں دینا ہوگا۔اسٹیٹ بینک کے مطابق موجودہ صورتحال کا جائزہ لیا جا رہا ہے اور اگر حالات غیر مستحکم ہوئے تو اسٹیٹ بینک فوری طور پر اقدامات کرے گا۔اسٹیٹ بینک کے گورنر رضا باقرکے مطابق پاکستان مارکیٹ بیسڈ ایکسچینج پالیسی کے تحت کام کرتا ہے جس میں مانگ اور طلب کے تحت روپے کی قدر طے ہوتی ہے لیکن پاکستانی روپے کو مکمل طور پر مارکیٹ کے حوالے نہیں کیا جاسکتا۔