اسلام آباد (این این آئی) وزیر مملکت برائے خزانہ رانا محمد افضل خان نے کہا ہے کہ موجودہ حکومت آئندہ مالی سال 2018-19 کیلئے وفاقی بجٹ پیش کریگی، نئے مالی سال میں تنخواہ دار طبقہ کو تقریبا 80 ارب روپے کا ٹیکس ریلیف دیا جائیگا، یکم جولائی 2018 سے ایک لاکھ روپے ماہانہ سے کم آمدنی والے افراد کو انکم ٹیکس سے چھوٹ حاصل ہو گی جبکہ ایک لاکھ سے زائد آمدنی والے افراد کیلئے بھی ٹیکس کی شرح میں نمایاں کمی کی جا رہی ہے،
حکومتی اقدامات کی بدولت ایف بی آر کے مجموعی محصولات چار ہزار ارب روپے سے تجاوز کر گئے ہیں۔وزیر مملکت برائے خزانہ رانا محمد افضل خان نے یہ بات منگل کو سینیٹر فاروق ایچ نائیک کی زیر صدارت منعقد ہونیوالے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ، ریونیو واقصادی امور کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہی ۔اجلاس میں کمیٹی اراکین کے علاوہ وزارت خزانہ و ایف بی آر کے حکام کیساتھ دیگر نے بھی شرکت کی۔ وزیر مملکت رانا محمد افضل خان نے کہا کہ موجودہ حکومت ہی آئندہ مالی سال 2018-19 کیلئے وفاقی بجٹ پیش کریگی۔ انہوں نے کہا کہ نئے مالی سال میں تنخواہ دار طبقہ کو تقریبا 80 ارب روپے کا ٹیکس ریلیف دیا جائیگا۔ انہوں نے کہا کہ یکم جولائی 2018 سے ایک لاکھ روپے ماہانہ سے کم آمدنی والے افراد کو انکم ٹیکس سے چھوٹ حاصل ہو گی جبکہ ایک لاکھ سے زائد آمدنی والے افراد کیلئے بھی ٹیکس کی شرح میں نمایاں کمی کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہاکہ موجودہ حکومت کی جانب سے کئے گئے اقدامات کی بدولت فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے مجموعی محصولات چار ہزار ارب روپے سے تجاوز کر گئے ہیں۔ کمیٹی کے رکن مصدق مسعود ملک نے ایف بی آر کے ٹیکس نظام میں تبدیلی کیلئے کئے گئے اقدامات کو سراہتے ہوئے کہا کہ اس حوالے سے کئے گئے فیصلے سے تنخواہ دار طبقہ کو ریلیف ملے گا جن میں زیادہ تعداد غریبوں یا متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی ہے۔ انہوں نے محصولات میں اضافے کے پیش نظر مستحق طبقات کو مزید ریلیف دینے پر زور دیا۔
ممبر ان لینڈ ریونیو ایف بی آر محمد اقبال نے کمیٹی کو بتایا کہ ایک لاکھ روپے تک ماہانہ آمدنی والے افراد جو ٹیکس فائلر ہیں وہ اسی طرح ٹیکس فائلرز میں شامل رہیں گے تاہم انہیں زیرو ریٹڈ کہا جائیگا۔ اجلاس میں پاکستان میں مقامی اثاثوں کو رضاکارانہ طور پر ظاہر کرنے سے متعلق بل 2018 ، انکم ٹیکس ترمیمی بل 2018 ، بیرون ملک موجود اثاثے ظاہر کرنے اور ان کی منتقلی سے متعلق بل کے علاوہ تحفظ اقتصادی اصلاحات بل کا بھی جائزہ لیا گیا اور اس حوالے سے ضروری ترامیم کیلئے سفارشات پیش کی گئیں۔