اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) چاروں صوبوں کی جانب سے پیش کردہ مناسب نقد اضافے کے باوجود پاکستان کا مالی سال کے پہلے نصف حصے میں مالیاتی خسارہ مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی) کا 2.2 فیصد تک پہنچ چکا ہے۔ واضح رہے کہ مالی سال بجٹ 18-2017 میں حکومت نے مجموعی طور پر مالی خسارہ 4.1 فیصد تک محدود رکھنے کا ہدف رکھا تھا لیکن مالی سال کے 6 ماہ میں خسارہ 2.2 تک پہنچ چکا ہے ۔
جس کے بعد مالی سال کے اختتام تک خسارہ 4.8 فیصد ہو سکتا ہے ۔ 47 کھرب 50 ارب روپے کا وفاقی بجٹ پیش چاروں صوبائی حکومتوں کی جانب سے مجموعی طور پر وفاقی حکومت کو 1 کھرب 50 ارب روپے دیئے گئےجبکہ وفاقی حکومت کو امید ہے کہ صوبائی حکومتیں مالی سال کے اختتام تک اضافی 3 کھرب 47 ارب روپے فراہم کرے۔ آبادی اور وسائل کے اعتبار سے سب سے بڑے صوبے اور حکمراں جماعت مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے باوجود صوبہ پنجاب نے چھ ماہ میں سب سے کم سرپلس 12 ارب 48 کروڑ ادا کیے جبکہ سندھ نے سب سے زیادہ 55 ارب 30 کروڑ جبکہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان نے 41، 41 ارب روپے ادا کیئے۔ اعداد و شمار کے مطابق مالی سال کے نصف عرصے میں مجموعی آمدنی اور اخراجات گزشتہ سال کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں جبکہ آمدنی کے ذخائر میں اضافے سے اخراجات میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا۔ خیبر پختونخوا کا 603 ارب روپے کا بجٹ پیش وزارت فنانس نے تبایا کہ مالی سال کے پہلے چھ ماہ میں مجموعی ریونیو میں اضافہ ہوا جو 23 کھرب 85 ارب 50 کروڑ روپے رہا جو گزشتہ سال کے اسی عرصے میں 19 کھرب 90 ارب روپے تھا۔ گزشتہ سال جی ڈی پی کا ٹیکس ریونیو 5.5 فیصد تھا جو رواں مالی سال میں ابتک 5.6 تک پہنچ چکا ہے۔ دوسری ۔
جانب مارک اپ کی ادائیگیوں میں اضافہ رہا اور پہلے نصف مالی سال میں 75 کھرب 20 ارب روپے ادا کیے گئے جو جی ڈی پی کا کل 2.1 فیصد بنتا ہے اور دفاعی اخراجات جی ڈی پی کا 1.1 فصد رہا۔ پاکستان کی تاریخ کے ‘سب سے بڑے’ ترقیاتی بجٹ کی منظوریرواں مالی سال کے پہلے 6 ماہ میں ترقیاتی اخرجات کا حجم 6 کھرب 14 ارب روپے رہا جو جی ڈی پی کا کل 1.7 فیصد بنتا ہے گزشتہ سال اسی عرصے میں 1.6 فیصد تھا۔